کافی دیر ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے کے بعد ن لیگ کی مرکزی قیادت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کا یہ سفر محض وقت کا ضیاع ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ اندر خانے خفیہ بات چیت میں جو امکانات زیر بحث آئے تھے وہ ’رات گئی بات گئی‘ طرز کے تھے۔
پنجاب میں تبدیلی، مرکز میں قومی حکومت، نئے انتخابات، چوہدری پرویز الہٰی فارمولہ اور چوہدری نثار علی خان نسخہ سب کچھ وقت گزارنے کا ایک بہانہ تھا۔ صحافی، تجزیہ نگار، شریف خاندان کے ارکان اور پاکستان میں موجود چند ایک امن پسند جیالے سب ماموں بن گئے۔ اب لندن میں موجود شریف خاندان کے ارکان پر واضح ہو گیا ہے کہ عمران خان کسی اندر خانے ڈیل کے ذریعے نہیں ہٹائے جا سکتے۔
ویسے بھی عمران خان ہٹنے کے لیے تو آئے نہیں ہیں اور نہ ہی انہوں نے اس نظام کے چلانے والوں کے احکامات پر اتنی تندہی سے عمل درآمد کرسی پکی رکھنے کی ضمانت کے بغیر کیا ہو گا۔ ہاتھ آئی طاقت کون چھوڑتا ہے۔
میاں شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے دنوں میں اپنی پارٹی کی حکومت کو دہائیوں چلانے کی بات کرتے تھے۔ پرویز الہٰی جنرل پرویز مشرف کو درجنوں مرتبہ باوردی صدر منتخب کروانے کی بڑھکیں لگاتے تھے۔ آصف علی زرداری خود کو سب پر بھاری سمجھتے تھے۔
ایسا ہی ہوتا ہے، طاقت ور طاقت میں رہنے سے بنتا ہے چھوڑنے سے نہیں، لیکن ن لیگ نے یہ سبق گذشتہ کئی ماہ کی خواری کے بعد سیکھا ہے۔ حالانکہ ان کو نئی کوشش کرنے کی مشقت نہ اٹھانی پڑتی اگر وہ تاریخ سے سبق سیکھ لیتے اور کچھ نہیں تو چوہدری نثار علی خان سے ہی پوچھ لیتے۔
2018 کے انتخابات کے موقعے پر چوہدری صاحب جیپ میں سوار ہو گئے۔ پنجاب کے ہر اہم ضلعے سے مزید سواریاں بٹھانے کی ذمہ داری بھی اٹھا لی۔ پنڈی، لاہور، مظفر گڑھ ، ڈی جی خان ہر جگہ یہ پیغام پہنچ گیا کہ ان انتخابات کے بعد طاقت کا عنقا چوہدری نثار علی خان کے سر پہ بیٹھے گا۔ کہنے کو ان کے پاس ساری ضمانتیں موجود تھیں۔ جبھی تو وہ ٹیلی ویژن انٹرویوز میں اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروانے کا بول بولتے تھے۔
کوئی کہتا تھا عمران خان کے ساتھ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر اڑھائی اڑھائی سال کی شراکت داری ہو گی۔ کسی کا دعویٰ تھا کہ وہ پنجاب کے چیف منسٹر بن جائیں گے۔ یا کم از کم کابینہ میں کوئی کلیدی عہدہ پا کر ملک کی باگ ڈور پر ایک مضبوط ہاتھ رکھیں گے۔ لیکن جب نتیجہ آیا تو ہوائیں الٹی آندھی بن گئیں۔ چوہدری صاحب کی پکی سیٹیں بھی ہاتھ سے نکل گئیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دھچکا اتنا شدید تھا کہ تمام تر تجربے کے باوجود چوہدری نثار علی خان دم بخود ہونے سے نہ بچ پائے اور اس وقت سے لے کر اب تک ذرائع ابلاغ پر بالواسطہ شکایات کے علاوہ اپنا سیاسی وجود سمیٹے اس صبح کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ دوبارہ سے معتبر ہو جائیں گے۔ نواز شریف سے تعلق بھی ٹوٹا، شہباز شریف سے دوستی بھی خراب ہوئی، حلقہ بھی ہاتھ سے گیا اور سیاسی وزن بھی کم ہوا۔
شہباز شریف خود چوہدری نثار جیسی کیفیت سے مسلسل گزر رہے ہیں۔ وہ ن لیگ میں بات چیت اور معاملے کو رفع دفع کرنے کی سب سے توانا آواز رہے ہیں۔ تمام تر سیاسی دھکیوں کے باوجود لڑائی کی آگ کو بجھانے میں پیش پیش رہنے والے شہباز شریف اپنے بھائی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے کی قیمت بھی چکا رہے ہیں، کاروبار بھی بند ہے اور حمزہ شہباز بھی حراست میں۔
شہباز شریف کے بعد آنے والا چیف منسٹر بھی ایسا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اپنے لوگ شہباز شریف کی کارکردگی کو یاد کرتے ہیں۔ مگر امن پسندی کا نتیجہ چوہدری نثار کی حقیقت شناسی والی سیاست سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ نہ ن لیگ کو سیاسی جگہ مل رہی ہے، نہ نئے انتخابات افق پر نظر آ رہے ہیں۔ وہ درجنوں تجاویز اور اس سے کہیں زیادہ رابطے جو ملکی سیاست میں حقیقی واپسی کے لیے کیے گئے تھے اب راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر روزانہ منہ چیڑاتے ہیں۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ نہ خدا ملا اور نہ صنم۔
مگر چوہدری نثار یا ان جیسے سیاست دانوں کے تجربات کے برعکس شہباز شریف، خواجہ آصف اور ایاز صادق کی جانب سے امن کی تاکید کے نتائج ن لیگ کی تمام سیاست پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے ہاتھ ملانے اور ایک نئے سیاسی نظام کو ترتیب دینے کی خواہش میاں محمد نواز شریف کی مرضی کے بغیر ایک باقاعدہ لائحہ عمل میں تبدیل نہیں ہو سکتی تھی۔
پھر بھی نواز شریف اور مریم نواز نے بات چیت کی بےعملی سے متعلق خاموشی میں بھی اپنی رائے کا اظہار مسلسل کیا اور اب ان کی رائے ثبوت کے ساتھ ن لیگ کے تمام حلقوں میں موضوع بحث ہے۔
یہ بحث بات چیت کے ذریعے عمران خان کو ہٹانے والی خواہش کی طرح فضول ثابت ہو گی اگر ن لیگ کی قیادت اپنے روایتی جمود میں سے نہ نکل پائی۔ ہم نے بیشتر یہ منظر دیکھا ہے کہ ن لیگ حالات و واقعات سے فوری متاثر ہو کر ظاہری تاثرات کے پیچھے ایک غیرمنطقی دوڑ شروع کر دیتی ہے۔ جو منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔ مجھے کیوں نکالا مہم اس کی ایک مثال ہے۔
2020 انتخابات کا سال ہو گا یہ نعرہ دوسری مثال ہے۔ نتجیتاً جماعت ایک شدید سیاسی مخمصے میں پھنس گئی ہے۔ جی ٹی روڑ پر واپس آ نہیں سکتے۔ پچھلے دروازے سے ہونے والی بات چیت ایسے بند ہو گئی ہے جیسے موٹروے پر دھند کی وجہ سے ٹریفک کی بندش ہوتی ہے۔ نہ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے، نہ لڑ سکتے ہیں نہ برداشت کر سکتے ہیں۔
پارٹی کی ضلعی اور صوبائی تنظیمیں جو ویسے ہی بدحال ہیں یہ جاننے سے قاصر ہیں کہ ان کی قیادت کیا کرنا چاہ رہی ہے۔ ملک میں عوام کی زندگیوں کا اجاڑ پن اگر کسی سیاسی تحریک کی بنیاد نہیں بن پایا تو کیا معاملہ ن لیگ بطور نعرہ لے کر احتجاجی تحریک چلائے گی۔ ویسے بھی مشکل سے نیب اور جیلوں سے نکلنے کی جو وقتی سہولت حاصل کی گئی ہے کسی بھی لمحے واپس لی جا سکتی ہے۔
اس صورت میں احتجاج کون چلائے گا؟ اور پھر احتجاج واٹس ایپ اور ٹوئٹر سے تو نہیں چلتے اس کے لیے ملک میں واپس آنا پڑے گا۔ نواز شریف کی صحت اب ان کو کسی بھی مارچ کی قیادت سے روک چکی ہے۔ مریم نواز خاموش اور گھر بند ہیں۔ شہباز شریف پرواز کرنے کی ٹھانتے ہیں اور پھر بیٹھ جاتے ہیں۔
ہاں شاہد خاقان عباسی یا رانا ثنا اللہ قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے اہل ہیں لیکن ایف آئی اے اور نیب کے ہاتھ ان سے لمبے ہیں۔ کسی وقت پکڑ کر اندر کر دیں گے۔ کسی نے پوچھنا تو ہے نہیں۔
جہاں تک رہی پیپلز پارٹی کی بات تو ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ پکڑ میں نہیں۔ سندھ حکومت قائم ہے۔ بلاول بھٹو کو تقریباً روزانہ بیان دینے کی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ کی پیپلز پارٹی کو نہ اس وقت طلب ہے اور نہ حصول کی جستجو۔
ان حالات میں ن لیگ کی قیادت کیا ایسا کر پائے گی کہ اندرونی تبدیلی کی امیدوں پر پانی پھر جانے کی خفت کچھ کم ہو؟ وہ کیا ایسا نعرہ ہو گا جو ظلم کے ضابطوں کا ذکر بھی نہ کرے اور احتجاج کو بھی جلا بخشے؟ کہتے ہیں اس سوال کا جواب اگلے چند ہفتوں میں مل جائے گا، مگر اس پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں۔
ن لیگ کی لندن میں موجود قیادت تو یہ بھی کہتی رہی ہے کہ ان کو سیاست میں واپسی کا اختیار مل جائے گا۔ مگر ابھی تک دھکے کے علاوہ کچھ اور نہیں ملا۔ جب فیصلہ سازی دیوانے کے خوابوں پر بنیاد کرتی ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ دھکے ہی پڑتے ہیں۔