پاکستانیوں کی بیرون ملک خصوصاً مشرق وسطیٰ میں کام کی تلاش میں ترک وطنی کا سلسلہ 70 کی دہائی میں بڑے پیمانے پر شروع ہوا۔ اس سے قبل بھی پاکستانی دیگر ممالک خصوصاً برطانیہ اور امریکہ میں تعلیم یا معاش کی تلاش میں نکلتے تھے لیکن اس وقت یہ تعداد بہت کم تھی۔
مشرق وسطی کے 70 کی دہائی کے معاشی انقلاب میں وہاں پر ایک بہت بڑے تعمیری پروگرام کے آغاز اور ہنرمندوں کی ضرورت اور اس وقت کی پاکستانی حکومت کی پہل سے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملا جس سے پاکستان میں معاشی بہتری کا ایک نیا دور شروع ہوا۔
پچھلے 20 سالوں میں پاکستانیوں نے بڑی تعداد میں روایتی ممالک کے علاوہ جنوبی مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا میں بھی روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کی ہے۔ گو ابھی تک تارکین وطن کی صحیح تعداد کا اندازہ تو نہیں ہے لیکن دستیاب معلومات کے مطابق تقریبا 80 اور 90 لاکھ کے درمیان پاکستانی بیرون ملک قیام پذیر ہیں۔ یورپ، شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں بڑی تعداد میں پاکستانی وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں جس کی وجہ سے یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔
یہ اعداد بتاتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کا چار فیصد سے بھی زیادہ حصہ بیرون ملک قیام پذیر ہے جو شاید دنیا بھر میں تارکین وطن کی بڑی تعداد میں سے ایک ہے۔ تقریبا دو کروڑ پانچ لاکھ بھارتی بھی بیرون ملک قیام پذیر ہیں لیکن یہ بھارتی آبادی کا صرف دو فیصد کے قریب بنتی ہے۔
پاکستان کی معیشت کی ترقی میں تارکین وطن کی ترسیلات زر نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج تک ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر تارکین وطن کی ترسیلات پر کافی انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی تارکین وطن نے پاکستان کی معیشت میں بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ملک میں نمایاں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ مثلا برطانیہ کے سر انور پرویز نے بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے یونائیٹڈ بینک کو خریدا اور ایک بہت بڑی سیمنٹ فیکٹری بھی قائم کی۔ اسی طرح بہت سے پاکستانیوں نے اپنے میزبان ممالک کی ترقی میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنے کاروبار کے ذریعے ان ممالک میں ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے۔
بدقسمتی سے جس طرح پاکستان میں عوام حال ہی میں سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوئے ہیں اس سے ان میں آہستہ آہستہ سیاسی اور سماجی رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی طرح تارکین وطن کی ایک بہت بڑی اکثریت پاکستان میں جاری منفی سیاست کی بنیاد پر تقسیم ہو چکی ہے اور ان میں سیاسی اختلافات میں شدت آئی ہے۔
ستر کی دہائی تک تارکین وطن ہم آہنگی کی تصویر تھے اور آپ کو ان میں بہت کم اختلافات کی خبریں ملتی تھیں لیکن 77 کی فوجی بغاوت کے بعد تارکین وطن کے سیاسی خیالات میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی۔ مشرق وسطی میں تارکین وطن زیادہ تر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسیوں اور مشرق وسطی کے حکمرانوں سے ان کے دوستانہ تعلقات کی بنیاد پر روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے تو ان میں فوجی بغاوت اور بھٹو کی پھانسی کا گہرا اثر ہوا اور وہ اس کے بارے میں شدت سے ناراض بھی ہوئے۔ چونکہ مشرق وسطیٰ کے بیشتر حکمران بھٹو سے متاثر تھے تو انہوں نے کبھی اس سیاسی غصے کے اظہار پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔
1977 کی فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں سیاسی ظلم و ستم کی وجہ سے بہت سارے دانشور بشمول فیض احمد فیض، احمد فراز اور سیاسی کارکن ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور انہوں نے بیرون ملک قیام کے دوران فوجی حکمرانوں کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ اس سیاسی جدوجہد نے تارکین وطن میں ایک بڑی سیاسی بیداری پیدا کی اور انہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں بیرون وطن متحرک دلچسپی لینی شروع کر دی۔
اسی وقت بیرون ملک پیپلز پارٹی کے دفاتر قائم ہوئے اور ان کے عہدے داران نے کمیونٹی میں پاکستان کے سیاسی معاملات پر سنجیدہ بحث کا آغاز کیا۔ بہت سارے سیاسی رہنما جو اس وقت پاکستان میں سیاسی گھٹن اور پابندیوں کے باعث اپنا مدعا بیان نہ کر پاتے تھے ان کے لیے یہ پلیٹ فارم بہت مفید ثابت ہوا۔
حکومت وقت نے اس بڑھتے ہوئے اختلاف رائے کو دبانے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کی مدد سے پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کو بیرون ملک متحد کرنا شروع کیا اور انہیں مالی و دیگر امداد کے ذریعے اپنی حمایت پر مائل کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ اس طرح کے اقدامات سے مشرق وسطی کے کئی ممالک اور برطانیہ میں تارکین وطن واضع سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہوئے اور ان کے آپس میں اختلافات بھی گہرے ہوئے۔
یہ تقسیم نوے کی دہائی میں اور واضح ہوئی اور تارکین وطن پاکستانی بیرون ملک سیاسی بنیادوں پر مزید تقسیم ہوئے جب کراچی میں ایم کیوایم کے خلاف مختلف فوجی آپریشنز شروع کیے گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں لاتعداد سیاسی کارکن بیرون ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوگئے۔ ایم کیو ایم کا سیاسی ہیڈکوارٹرز بھی لندن منتقل ہوگیا اور برطانیہ میں میں مقیم پاکستانیوں میں سیاسی تقسیم زیادہ نمایاں ہوگی۔
فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں کراچی سے بڑی نقل مکانی امریکہ کو ہوئی اور امریکہ کے بڑے بڑے شہروں میں پاکستان سے متعلق سیاسی سرگرمیوں میں پہلی دفعہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ان سرگرمیوں میں کچھ جگہوں پر شدت اور تشدد بھی دیکھنے میں آیا اور بہت سارے سیاسی حساب کتاب وہاں پر تشدد سے طے کیے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کے ظہور نے اس سیاسی ماحول میں مزید تلخی پیدا کی۔ میں نے اپنے برطانیہ اور امریکہ کے تجربے سے دیکھا کہ لوگ سیاسی بنیادوں پر اپنے سماجی تعلقات کا فیصلہ کرنے لگے اور محبتوں اور نفرتوں کے فیصلے بھی سیاسی بنیادوں پر ہونے لگے۔ امریکہ میں خاص طور پر کچھ اخباروں اور کمیونٹی ریڈیو سٹیشنز نے اس سلسلے میں انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ شاید اسی وجہ سے وزیر اعظم عمران خان کی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ستمبر 2018 میں ڈیم فنڈ کے لیے ایک ہزار ڈالرز ارسال کرنے کی اپیل سنی ان سنی ثابت ہوئی۔
وزیر اعظم کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران کمیونٹی سے خطاب نے اس تقسیم اور نفرت کی حدت میں اضافہ کیا۔ وہ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں اتحاد کے فروغ کی ترغیب دینے کی بجائے انہیں مزید منقسم کرنے میں معاون نظر آئے۔
اس تقسیم میں ہمارے بیرون ملک کمیونٹی رہنماؤں کے علاوہ سب سے بڑا قصور ہماری سیاسی قیادت کی نااہلی اور فوجی قیادت کی سیاست میں دلچسپی اور مسلسل مداخلت رہا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایک ایک معمول کے معاشرے کی طرح جمہوریت کو پنپنے کا موقع دیا جاتا اور جمہوری روایت قائم کی جاتیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ تارکین وطن بھی عام لوگوں کی طرح سیاسی بنیادوں پر رائے تو رکھتے مگر سیاسی بنیادوں پر سماجی تقسیم کا شکار نہ ہوتے۔
اس سلسلے میں موجودہ قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی اختلاف رائے کی شدت میں کمی لائے اور ایک متوازن جمہوری کلچر کو فروغ دے، نہ کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کی حد تک لے آئے اور ملک کے سیاسی ڈھانچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے۔
تارکین وطن کو سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی بجائے ان میں اتحاد اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے مدد کی ترغیب دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے ہمارے معاشرے اور تارکین وطن کو صرف جمہوری قدریں ہی مضبوط کرسکتی ہیں۔
ہماری سیاسی قوتوں کو غیرجمہوری عناصر کی سازشوں کو ناکام بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے غیرجمہوری قوتوں کے ساتھ سودا بازی کی جائے۔