پاکستانی کا سفرنامہ جنہیں انڈیا میں 10 بار پولیس سٹیشن حاضری لگانی پڑی

107 ممالک کا سفر کرنے والے شعیب کو انڈیا میں دہلی، آگرہ، جے پور اور بنارس کا ویزا ملا اور اس دوران ان کا 10 مرتبہ پولیس سٹیشن جانا ہوا۔

شعیب گنڈا پور ایک ایسے سیاح ہیں جو ایک سو سات ممالک دیکھ چکے ہیں۔ تاہم پیشے کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ شعیب گنڈا پور نے اسی دوران  ایک سفر نامہ بھی لکھ لیا جو ان کے انڈیا کے سفر سے متعلق ہے۔

شعیب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اتنے ملکوں کا سفر کرنے کے بعد انہوں نے انڈیا پر کتاب لکھنے کے لیے اس لیے سوچا کیونکہ انہیں اس بارے میں بچپن سے ہی تجسس تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ’میرے نانا اور پرنانا انڈیا میں کاروبار کے سلسلے میں جایا کرتے تھے اور واپس آ کر وہاں کے جوگیوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے، وہ جوگی جو ایک ہی آسن میں کئی کئی دن گزار دیتے تھے۔‘ 

شعیب کا کہنا تھا: ’پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے انڈیا کا ویزا ملا اور میں وہاں کیسے گیا، اس بات میں سبھی کو دلچسپی ہوتی ہے۔ واقعی میں آج کل کے حالات میں ویزا ملنا کافی مشکل ہو چکا ہے۔

’میرا سفر 2017 میں تھا اور میرا ویزا ایک دعوت نامے کے ذریعے آیا تھا جو میں نے اپنے وہاں تعلقات کی بنیاد پر منگوایا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان کی یہ کتاب ’کمنگ بیکـ‘ چند روز قبل برطانیہ میں شائع ہوئی اور اس کے بعد اسے پاکستان میں بک کارنر پبلی کیشن نے چھاپا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کتاب کا سرورق بھی شعیب کی اپنی پینٹ کی گئی تصویر ہے جبکہ اس کتاب میں شائع کی گئی تمام تصاویر بھی شعیب نے خود اپنے کیمرے سے کھینچیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کوشش یہ کی کہ ان تصاویر کے ذریعے وہ انڈیا کی روزمرہ کی زندگی کے لمحات کو قید کر سکیں۔

’ایک پاکستانی کا انڈیا جانا اور ایک سیاح کا کس نظر سے انڈیا کو دیکھنا اور انڈیا میں اس کا استقبال ہونا اس سب کو میں نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔‘

اپنے انڈیا کے سفر کے کچھ دلچسپ قصے سناتے ہوئے شعیب نے بتایا: ’انڈیا کا ویزا محدود ہوتا ہے اور اس پر مخصوص شہر درج ہوتے ہیں جہاں آپ جا سکتے ہیں اور ہر شہر میں پہنچ کر اور اس شہر کو چھوڑنے سے پہلے آپ کو پولیس سٹیشن میں رپورٹ کرنا ہوتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ انڈیا میں ان کو دہلی، آگرہ، جے پور اور بنارس کا ویزا ملا  اور انہوں نے 16 دن وہاں قیام کیا، اس دوران ان کا 10 مرتبہ پولیس سٹیشن جانا ہوا۔

’یہ ایک خاص تجربہ تھا کہ کیسے آپ پولیس سٹیشن جاتے ہیں اور کیسے وہ وہاں شیلف سے ایک پرانا رجسٹر نکال کر اس میں آپ کے کواائف درج کرتے ہیں۔ میں سوچتا تھا کہ جانے مجھ سے پہلے اور کتنے لوگوں کے کوائف اس رجسٹر میں درج کیے گئے ہوں گے اور کیا جب یہ رجسٹر دوبارہ شیلف میں چلے جاتے ہیں تو کیا کوئی انہیں دوبارہ کھول کر دیکھتا ہے؟‘

شعیب نے بتایا کہ ان کے کچھ تجربات ایسے تھے جن سے دونوں ممالک کے تاریخی روابط کا علم ہوتا ہے۔

’میں دلی میں تھا جہاں ایک مشہور گلی ہے جس کا نام ہے پراٹھے والی گلی، میں اور میرا دوست وہاں ایک ریستوران میں گئے اور جب ہم وہاں گئے تو وہاں کے ویٹر نے مجھ سے کہا، ’ارے بڑے دنوں بعد آنا ہوا۔‘

ان کے مطابق: ’جبکہ یہ میری زندگی کا وہاں پہلا سفر تھا لیکن میرا استقبال ایسے کیا گیا جیسے میں وہاں پہلے بھی آیا کرتا تھا او اب دوبارہ آ رہا ہوں۔‘

شعیب نے بتایا کہ انڈیا میں مختلف شہروں میں اب بھی بہت سی ایسی نشانیاں ملتی ہیں جو ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو تقسیم کے وقت پاکستان سے ہجرت کر کے وہاں گئے۔

’دکانوں کے نام ملتان اور لاہور کے نام پر بھی ہیں، میرے اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے نام پر، ڈیرہ ول نگر کے نام سے ایک کالونی بنی ہوئی ہے، ڈی آئی خان کے نام سے سکول بنے ہوئے ہیں، ڈی آئی خان کمیونٹی وہاں اپنے رسالے نکالتی ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس کتاب میں یہ بھی لکھا کہ وہاں اردو زبان کے بارے میں لوگ کیا سوچتے ہیں۔

’میں وہاں اردو شاعر غالب کے مزار پر گیا، قرۃ العین حیدر کی قبر پر گیا اور یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ وہاں لوگ پاکستانی ادیبوں کے بارے میں کیا تاثرات رکھتے ہیں یہ سب چیزیں میں نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔

’میرے دل کے قریب اپنے شہر کے لوگ جو ڈیرہ اسماعیل خان کو چھوڑ کر انڈیا میں جا کر آباد ہوئے۔

’وہاں میرا ان لوگوں سے بھی رابطہ ہوا جو میری زبان پشتو بولتے ہیں اور ہندو پشتون کہلاتے ہیں، جو تاریخ میں بھولے جا چکے ہیں لیکن وہ ابھی بھی کہیں کہیں ملتے ہیں اور اپنی شناخت اور تاریخ سے رشتہ جوڑے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

شعیب کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ انڈیا جانا چاہتے ہیں اور اب وہ ممبئی، حیدر آباد اور لکھنؤ جانا چاہتے ہیں۔

’وہاں پر تاریخ و ثقافت کے حساب سے دلچسپی کی بہت چیزیں ہیں جس کے لیے شاید کئی سفر درکار ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا