پاکستان کی وفاقی حکومت پرامید ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کی کوششیں بار آور ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ گذشتہ دو ماہ سے زیادہ عرصے کے دوران ملک میں معذور کرنے والی اس موزی بیماری کا کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا، تاہم حال ہی میں متعدد شہروں سے حاصل کردہ پانی کے نمونوں میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔
حکومت پنجاب کی ٹاسک فورس برائے پولیو کے بدھ کو ایک اجلاس میں انکشاف ہوا کہ ملک بھر کے کم از کم 25 شہروں سے حاصل کیے گئے سیوریج کے پانی کے نمونوں میں بڑی مقدار میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ ان چھ شہروں میں وزیر اعظم شہباز شریف کا اپنا آبائی شہر لاہور بھی شامل ہے۔
رواں سال مارچ میں ملک کے کئی شہروں سے ماحولیاتی نمونے حاصل کیے گئے تھے، جن کے لیباریٹری ٹیسٹوں سے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔
دوسری جانب اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے ایک اجلاس میں امید ظاہر کی گئی کہ پاکستان سے جلد ہی پولیس وائرس کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔
پنجاب کے جن شہروں کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ان میں لاہور، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاولنگر، ملتان اور رحیم یار خان شامل ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی فوکل پرسن برائے پولیو مہم عظمیٰ کاردار کا کہنا تھا ’اب گذشتہ چند ماہ سے پنجاب کے چھ اضلاع میں سیوریج کے پانی میں بڑی مقدار میں پولیو وائرس کی موجود ہونے کی تصدیق ہو رہی ہے۔‘
ماضی میں عالمی ادارہ صحت اور قومی صحت پروگرام پاکستان نے پنجاب کے زیر زمین اور سیوریج کے پانی کے نمونوں کا جب بھی ٹیسٹ کروایا تھا صوبے میں براہ راست پولیو وائرس کی تصدیق کبھی نہیں ہوئی۔
پاکستان، افغانستان کے ہمراہ، دنیا میں صرف دو پولیو والے ممالک میں سے شامل ہے، جہاں 2024 میں 74 بچوں میں اس بیماری کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال رواں کے پہلے دو مہینوں میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ سے پولیو وائرس کے مزید چھ کیسز سامنے آ چکے ہیں۔
تاہم 2025 کا آخری کیس 10 فروری کو رپورٹ ہوا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پولیو کے خاتمے کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ وائرس کے پھیلاؤ میں رکاوٹ ملک گیر پولیو ویکسینیشن کی سخت مہموں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس میں زور دیا کہ 21 اپریل سے شروع ہونے والی انسداد پولیو کی مہم میں پانچ برس سے کم عمر ہر بچے کو پولیو کی ویکسین پلائی جائے.
انہوں نے کہا کہ پولیس ویکسین کے علاوہ بچوں کو دیگر خطرناک بیماریوں کے خلاف مدافعت کے لیے معمول کی ویکسینیشن کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اجلاس میں وزیرِ اعظم کو 21 سے 27 اپریل کو شروع ہونے والے انسداد پولیو مہم کے بارے بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ مذکورہ مہم میں ساڑھے 45 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلائی جائے گی جبکہ اس ملک گیر مہم میں چار لاکھ 15 ہزار پولیو ورکرز حصہ لیں گے۔
شرکا کو مزید بتایا گیا کہ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر مہم کی تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن 28 سے 30 اپریل کو مکمل کر لی جائے گی۔
ملک میں گذشتہ انسداد پولیو مہمات کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ 10 فروری 2025 سے اب تک ملک میں ایک بھی پولیو کا کیس رپورٹ نہیں ہوا جبکہ انسداد پولیو مہمات کی کولڈ چین ٹریکنگ کی ڈیجیٹل نظام کے تحت نگرانی کی جا رہی ہے۔
امریکی امداد بند ہونے پر پولیو مہم متاثر ہو گی؟
عظمیٰ کاردار کے خیال میں ’پاکستان میں پولیو مہم کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او سے ملنے والی امداد صرف 30 فیصد ہوتی ہے جو صرف امریکی امداد سے نہیں بلکہ مختلف عالمی تنظیموں کے ذریعے ملتی ہے۔
’ہم اپنے وسائل کے ذریعے بھی مؤثر پولیو مہم چلاتے ہیں۔ اب بھی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت اجلاس میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ پنجاب کو پولیو فری صوبہ برقرار رکھنے کے لیے منظم پولیو مہم چلائی جائے گی۔
’امریکی امداد ملے یا نہ ملے، پولیو مہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ہم نے تیاری مکمل کر لی ہے، ہمارے لاکھوں پولیو ورکرز گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے۔
پاکستان انسداد پولیو پروگرام کے ریکارڈ میں بتایا گیا ہے کہ پانچ مارچ، 2025 سے 19 مارچ، 2025 کے دوران ملک کے 51 اضلاع سے کل 60 نمونے حاصل کیے گئے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کی لیبارٹری میں نمونوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔ اس دوران 31 اضلاع سے لیے گئے 35 نمونے منفی آئے، جبکہ 20 اضلاع سے لیے گئے 25 نمونے مثبت آئے ہیں۔