مشہور زمانہ باربی گڑیا کی رواں مہینے 60ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
باربی گڑیا پہلی مرتبہ مارچ 1959 میں امریکی کھلونا میلہ میں متعارف ہوئی تھی اور اس کے پیچھے میٹل کمپنی کی صدر رتھ ہنڈلر اور ڈیزائنر جیک ریان کا ہاتھ تھا۔
ہینڈلر کے شوہر اور کمپنی کے شریک بانی باربی کو ایک مکمل گڑیا قرار دیتے ہیں۔
باربی تخلیق کرنے والی ہینڈلر چھاتی کے کینسر اور جیک خودکشی کی وجہ سے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں لیکن ان کی تخلیق آج بھی ہمارے ساتھ ہے۔
میں نے باربی خریدنے کا سوچا تو ریجنٹ سٹریٹ پر واقع ہیملیز سٹور جا پہنچا جہاں کی دوسری منزل پر خلا نورد، نیوز اینکر، ڈاکٹر غرض کہ مختف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی قیمتی باربی گڑیا کی لاتعداد اقسام سجی دیکھیں اور ان میں ایک منتخب کرنا مشکل کام تھا۔
ان میں سے ایک قابل ذکر ماڈل جی جی حدید کی لمبے بالوں والی اور ہم شکل گڑیا ہے۔
تاہم عالمی ڈریس ڈیزائنر ٹومی ہلفگر کے کپڑوں میں ملبوس ’جی جی حدید‘ کی 120 پاؤنڈز قیمت دیکھ کر مجھے دھچکہ لگا۔
میں نے کوئی گڑیا خریدنے سے پہلے باربی کے مداحوں سے رائے جاننا مناسب سمجھا۔
کیتھی کو بچپن میں باربی گڑیوں کا زیادہ شوق نہیں تھا اور ان کے پاس کلیکشن میں موجود زیادہ تر گڑیاں اپنی بڑی بہن سے ملیں۔
ان گڑیوں میں سے بیشتر کی حالت خستہ لیکن انہوں نے کیتھی کی تین سے پانچ سال تک عمر میں مختصر کردار ضرور ادا کیا۔
تاہم چھ سال کی عمر میں کیتھی کی باربی گڑیوں میں دلچسپ ختم ہو چکی تھی اور اس کی زیادہ توجہ کتوں اور دوسرے کھلونوں میں تھی۔
میری ملاقات باربی گڑیوں کی سنجیدہ کلیکٹر سٹیف سے ہوئی۔ نہ صرف انہوں نے اپنی باربی ’ڈیلاس‘ سنبھال رکھی ہے بلکہ ان کے پاس ایک باربی گھوڑا بھی ہے۔
برطانوی سنڈی امریکن باربی کی حریف ہے اور سٹیف باربی پر سنڈی گڑیوں کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ ان کے بقول سنڈی کی جسمانی ساخت حقیقت سے زیادہ قریب اور وہ شوخ و چنچل ہونے کی وجہ سے سخت جان لگتی ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ سٹیف کی باربی یا سنڈی سے کہیں زیادہ دلچسپی پلاسٹک کے گھوڑوں میں ہے۔
سٹیف بتاتی ہیں کہ ایک وقت پر ان کے پاس 27 پلاسٹک کے گھوڑے تھے جن پر وہ اپنی گڑیوں کو گھڑ سواری کرواتی تھیں۔
میری تیسری ملاقات ریچل سے ہوئی جن کی پیدائش باربی کے ’جنم‘ کے آس پاس ہے۔
ریچل بتاتی ہیں کہ ان کے والدین باربی رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کا کبھی دل نہیں چاہا کہ وہ باربی خریدیں تو ریچل نے بتایا: ’میرے پاس مختلف ملکوں اور ثقافتوں کی نمائندگی کرنے والی گڑیاں موجود ہیں لیکن مجھےباربی میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔‘
ریچل نے بتایا کہ ان کی گڑیوں میں دلچسپی کی ایک وجہ ان سے مختلف طریقوں سے کھیل کھیلنا اور دوسری وجہ ناگوار رشتہ داروں اور دوستوں سے بچنا تھا۔
بچیوں کی باربی یا دوسری گڑیوں میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ انہیں موجودہ حالات سے نکال کر تخیلاتی دنیا میں لے جاتی ہیں، جہاں وہ مالک اور ہر چیز ان کی تابع ہوتی ہے۔
تو کیا لڑکیاں ہی گڑیوں میں دلچسپی لیتی ہیں یا پھر لڑکے بھی ایسا کرتے ہیں؟
یقینا کئی بچے بھی باربی گڑیاں اکٹھی کرتے ہوں گے لیکن میرے خیال میں آج کل کے لڑکوں کی زیادہ توجہ چھوٹی گڑیوں کے بجائے چین کی ویب سائٹ علی بابا پر دسیتاب جنسی تسکین کے لیے فل سائز گڑیوں میں زیادہ ہوتی ہے۔
پرانے زمانے میں لڑکوں کا شوق فوجی گڈے ہوتے تھے اور کچھ پختہ عمر کے لوگ آج بھی اُن فوجی گڈوں میں اپنا بچپن جیتے ہیں۔
میری ملاقات ایک ایسے ہی شخص ٹیڈ سے ہوئی جس کے گڈے دنیا بھر کے سفر میں ٹیڈ کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ٹیڈ سے میری ایک ملاقات ہوائی کے ساحل پر بھی ہوئی جہاں وہ ریت پر اپنے فوجی گڈوں کی مدد سے تخیلاتی جنگ لڑنے میں مصروف تھت۔
سٹیف کے گھوڑوں کی طرح ٹیڈ کے پاس ٹینک اور جنگی جہازوں کے کھلونے بھی ہیں۔
اگر میں اپنا بتاؤں تو مجھے باربی یا فوجی گڈوں سے زیادہ ڈائنوسارز کے کھلونوں میں دلچسپی تھی۔
میرے دونوں بیٹے بچپن میں ایکشن ہیروز کے ماڈلز جمع کرتے تھے،
اور ان کی کلیکشن میں سب سے نمایاں بیٹ مین تھا۔
اُس وقت سبھی سپر ہیروز میرے بیٹوں کے رول ماڈل تھے البتہ کچھ وقت کے لیے میں بھی ان کا رول ماڈل رہا۔
’ایک شام میں باہر جا رہا تھا تو میرے تین سالہ بیٹے نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔میں نے بتایا کہ میں ویمبلے میں ہونے والی ایک بڑی لڑائی میں جا رہا ہوں تو اس نے معصومیت سے کہا امید ہے آپ جیت کر آئیں گے۔‘
ہم انسانوں میں مایوس ہونے کا عنصر پایا جاتا ہے کیونکہ ہم اپنی تخیلاتی دنیا میں ہر چیز ممکن ہوتا دیکھتے ہیں، لیکن حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔
تخلیقی کام کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا کسی بھی مرحلے پر غلط ہو جانا ہے
ارتقائی نظریے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ شروع سے ہی غلطیاں ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔
ہم سارے انسان خامی سے پُر اور نامکمل ہیں۔ انسان دراصل ایک غلطی ہے جو اب پھیل چکی ہے اور باربی انسانی خامیوں سے پُر ارتقائی عمل کی اصلاح کی کوشش ہے۔
باربی کے ذریعے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ لڑکیوں کو دراصل ایسا لگنا اور ایسے کپڑے پہننے چاہییں۔
باربی اور بریٹز کے درمیان مقدمہ سننے والے جج الیکس کوزنسکی کہتے ہیں کہ ’چھوٹی لڑکیاں فیشن زدہ اور انتہائی خوبصورت جسم والی گڑیاں خریدتی ہیں لیکن حقیقی زندگی میں کسی کی جسمانی ساخت ان گڑیوں جیسی نہیں ہوتی۔‘
ہماری خود داری کو ہمارے ہی مثالی تصورات سے خطرہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میں ایک یونانی دوست کے ساتھ پارتھینون کے عجائب خانے میں گھوم رہا تھا جہاں خوبصورت داڑھی اور سخت جسموں والے مردوں کے سنگی مجسمے نصب تھے۔ میرا دوست اپنے اور ان مجسموں کے مثالی جسموں میں فرق دیکھ کر پریشان اور مایوس ہو گیا تھا۔
بہرحال مثالی خوبصورتی کا تصور انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے، جس سے واپسی ممکن نہیں۔
میرے خیال میں بھدی اور بدصورت گڑیاں کسی حد تک اس نقصان کا ازالی کر سکتی ہیں۔
جس طرح ہم پلاسٹک کی نلکیوں کا استعمال ختم کر رہے ہیں ویسے ہی مستقبل میں ہم خوبصورتی کے رائج معیارات کو کم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
شاید جادو ٹونے میں استعمال ہونے والی گڑیوں کی طرح باربی بھی اپنا جادو چلاتی ہیں۔
اور اس کا احساس مجھے ہیملیز کے سٹور میں کھڑے ہو کر ہو رہا ہے۔
یہاں مجھے 1994 میں ٹیلی ویژن سیریز ’دی سِمسنز‘ کے کردار لیزا سمسنز کا ایک جملہ یاد آ رہا ہے’ آخر کب تک اس طرح گڑیاں بناتے رہیں گے، اس کا کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔‘
اب تک اربوں باربی گڑیاں فروخت ہو چکی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ امریکا میں انسانوں سے زیادہ گڑیاں موجود ہیں۔
یہ پلاسٹک کا بھاری مقدار میں فضول استعمال ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن اس سارے پلاسٹک کو ری سائیکل کر کے کوئی فائدہ مند چیز بنائی جائے گی۔