خیبر پختنونخوا کی پشاور یونیورسٹی کے ہاسٹلز کو آئسولیشن مراکز قرار دینے کے سرکاری فیصلے پر پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ قرنطینہ مراکز آبادی سے دور مضافاتی علاقوں میں قائم کیے جائیں۔
اساتذہ کی تنظیم کے انتظامی عملے کے جاری بیان میں خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ چونکہ یہ کیمپس ایک رہائشی علاقہ ہے اور یہاں خاندان رہتے ہیں لہٰذا یہاں قرنطینہ مراکز سے ان کو بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ایک بار اگر ان مراکز میں کرونا وائرس کے شکار مریض داخل ہو گئے تو یہ جگہ مستقبل میں بھی استعمال کے قابل نہیں رہے گی۔
پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اپنے فیصلے پر بضد رہی تو کسی بھی ناخوشگوار صورت حال کی ذمہ دار ضلعی انتظامیہ ہوگی۔
دو دن قبل کچھ اسی طرح کی صورت حال مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں بھی پیش آئی جب ضلعی انتظامیہ نے کیمپس کو قرنطینہ مرکز قرار دیتے ہوئے سعادت خان (کرونا سے وفات پانے والے شخص) کے اہل خانہ کو وہاں منتقل کیا۔
تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے اس منتقلی کی مخالفت کی اور ضلعی انتظامیہ اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے درمیان بحث وتکرار میں کئی گھنٹے ضائع ہوئے تھے۔
بعد میں جب یونیورسٹی انتظامیہ مان بھی گئی تو 20 سے زائد مرد وخواتین کو صرف ایک ہال دیا گیا جس کے باعث انہیں غصہ آ گیا تھا۔
کیا تعلیمی اداروں میں قرنطینہ مراکز سے خطرہ ہے؟
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس سے وابستہ ڈاکٹر امیر تاج نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کسی بھی قرنطینہ مرکز سے ایک عام شخص کو اس وقت تک کوئی خطرہ نہیں ہوتا جب تک وہ اس مرض کے شکار فرد کے قریبی رابطے میں نہ ہوں۔
'اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ ہاتھ ملایا ہو یا بغل گیر ہوا ہو۔ اگر ایسا ہوا بھی ہو تو فوری طور پر ہاتھ صابن سے اچھی طرح دھونے سے یہ وائرس آپ کو نہیں لگ سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر امیر تاج نے بتایا کہ ایک گز کا فاصلہ رکھنے سے کرونا وائرس لگنے کا احتمال نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر یہ مراکز تعلیمی اداروں کے اندر ہوں یا کسی اور آبادی والے علاقے میں، اس سے کسی کو خطرہ نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا کہ اگر تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے تو مستقبل میں وہ استعمال کے قابل نہیں رہیں گے۔
’اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ وائرس زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا، اس کے علاوہ ان جگہوں کو باقاعدہ طور پر جراثیم کش ادویات سے صاف کیا جائے گا۔‘
ڈاکٹروں کو خود کن مسائل کا سامنا ہے؟
ڈاکٹر امیر تاج نے بتایا کہ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک مریض کا معائنہ کیا تھا، جس کو بعد میں کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر قرنطینہ مرکز بھیج دیا گیا۔
'اس کے نتیجے میں مجھے بھی کوارنٹین کر دیا گیا، میرا ٹیسٹ لیا گیا، جس کا رزلٹ منفی آیا۔ یہ سب اس لیے ہوا کہ ہمارے پاس طبی کٹس نہیں ہیں، جب کہ ایک ڈاکٹر کو روزانہ 250 سے 300 مریض دیکھنے پڑ جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر تاج نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کی آبادی کے لیے 10 ہزار کٹس ناکافی ہوں گی۔ 'یہ کٹس بنانا بہت آسان ہے اور خود حکومت بھی انہیں بنا سکتی ہے۔
'یہ ایک بار استعمال ہونے کے فوراً بعد تلف کر دی جاتی ہیں، لہٰذا اگر ان کو فوراً خود ہماری حکومت بنانا شروع کر دے تو ضرورت پوری ہو جائے گی۔‘
حکومت کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟
پاکستان ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے یوتھ ونگ کے چیئرمین ڈاکٹر حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سیکرٹری ہیلتھ کی جانب سے ان کو ایک تربیت دی گئی جس میں ان کی سربراہی میں خیبر پختونخوا کے لیے ایک ہیلپ لائن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر حامد کے مطابق اس ہیلپ لائن کہ مقصد یہ ہے کہ کرونا وائرس سے متعلق معلومات کے لیے یا کرونا وائرس کی علامات پائی جانے کی صورت میں لوگوں کو ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اس ہیلپ لائن پر کال کریں، جہاں ڈاکٹر ان کو رہنمائی فراہم کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبے کے ہر ضلعے میں ایک فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔ 'ڈاکٹر کالرز کو ان کے متعلقہ فوکل پرسن کا رابطہ نمبر دیں گے، جو انہیں آگے کسی ہسپتال یا ڈاکٹر کو ضرورت ہونے پر ریفر کریں گے۔‘
ڈاکٹر حامد نے کہا کہ یہ نمبر کل یا پرسوں تک فعال ہو جائے گا جس کے بعد عوام کو میڈیا اور دوسرے ذرائع سے مطلع کر دیا جائے گا۔
انہوں نے ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے لیے کٹس کی کمی کے حوالے سے بتایا کہ سیکریٹری ہیلتھ نے انہیں بتایا کہ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کے لیے آٹھ ارب روپے کا بجٹ منظور کر لیا ہے لہذا تمام ہسپتالوں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ کسی قسم کی غفلت سے کام نہ لیں اور ان کی جو ضروریات ہیں ان کی لسٹ بنا دیں تو انہیں فنڈ مل جائے گا۔