اسلام آباد کی غلام گردشیں بڑے بڑے طرم خانوں کو چکر دے کر گڑھے میں دھکیل چکی ہیں لہذا جہانگیر خان ترین کو کسی الوداعی تقریب کے بغیر سیاسی طور پر جان لیوا دھچکا دے کر عملی طور پر ’فارغ‘ کرنے کا عمل باعث حیرت نہیں۔
اس شہر میں طاقت کا کھیل نیویارک اور شکاگو کے گینگز کی کہانیوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے، صرف راہ سے ہٹانے کا عمل مختلف ہے۔ ماتھے پر گولی مارنے کی بجائے کالک مل دی جاتی ہے۔ ڈنڈوں سے ہڈی پسلی برابر کرنے کی جگہ ذرائع ابلاغ میں منادی کروا کر نام اور شہرت کے حصے بخرے کر دیئے جاتے ہیں۔
تدفین اس وقت کی طرح کسی اندھی خندق میں گاڑنے جیسی تو نہیں ہوتی لیکن حالات ایسے ہی بنا دیئے جاتے ہیں جب یہ کہہ کر آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں کہ ان کے تعلقات پنڈی اور آبپارہ بھی اب ختم ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد تو بس یہ سمجھ لیں کہ اسلام آباد میں سیاسی سانس لینے کی جگہ بھی باقی نہیں رہتی۔
جہانگیر ترین اس وقت ان تینوں مراحل سے گزر رہے ہیں۔ بدعنوانی اور منافع خوری کے الزامات، میڈیا کے اندر تمام تر کوشش کے باوجود درگت اور ہر طرف سے آنے والی یہ آواز کہ ’بھائی لوگوں‘ نے ’جھنڈی‘ کروا دی ہے۔ اس بمباری کے بعد تو ہر اونچا محل نیست و نابود ہو جائے گا اور جہانگیر ترین تو ویسے بھی کانچ کی کوٹھڑی میں مقیم تھے۔
عدالت سے تاحیات نااہلی اور اپنے بیٹے کے سیاسی کیریئر کے شروع ہونے سے قبل ہی اختتام کے بعد ان کے پاس کوئی ایسی بنیاد نہیں بچی تھی کہ جس کے بل بوتے پر وہ سر اٹھا کر چل سکتے۔ بس ایک مان تھا تو وہ یہ کہ خان ان کے ساتھ ہے۔ اس ایک انجن پر ہی ان کا طیارہ بلندی پر پرواز کرتا رہا۔
اب اس اعتماد کے خاتمے کے بعد اس کے پاس زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جانے کے علاوہ کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا۔ عمران پلٹ کر اس کے پاس جائے گا نہیں۔ خان صاحب نے اپنی زندگی میں ایسے کئی تعلقات بنائے اور بگاڑے ہیں اور ہر مرتبہ جب بگڑنے کا لمحہ آتا ہے تو ان کا استقلال ناقابل شکست ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر جہانگیر ترین اس تمام فہرست کا جائزہ لے جس میں سے بہت سوں کے نام اس کی موجودگی میں لکھے گئے ہیں جو کبھی سر کا تاج تھے اور بعد میں دہلیز سے دھتکارے گئے تو وہ خود ہی جان جائے گا کہ خان صاحب نے اگر اس کو تہمت سے بچانا ہوتا تو شاید حالات یہاں تک پہنچنے کی نوبت ہی نہ آتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب جب جہانگیر ترین کو کمیٹیوں سے نکالنے کے ٹویٹ شہباز گل کرنے لگ گئے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ پاکستان کے اس غیررسمی ڈپٹی وزیر اعظم کا سورج بنی گالہ میں غروب ہو گیا ہے۔ اب وہ لاکھ کہے کہ وہ ابھی بھی پاکستان تحریک انصاف کا رکن ہے اور عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس کا جگری یار گھونسلہ چھوڑ گیا ہے۔ اور جاتے جاتے اس کو ایک تباہ کن لات بھی رسید کر گیا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ جہانگیر ترین صرف مشیر با تدبیر ہی نہیں تھا بلکہ گھر کا بھیدی بھی ہے۔ ایسا بھیدی جو جب چاہے لنکا ڈھا سکتا ہے۔ عمران خان کی جہانگیر ترین سے قربت اور اس پر انحصار کا میں عینی شاہد ہوں۔ 2013 اور 2018 کے انتخابات کی کوریج کے علاوہ بنی گالہ اور جانگیر ترین کی رہائش گاہ پر سیاسی اکٹھ و نشست کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر آج عمران خان وزارت کی کرسی پر موجود ہیں تو اس تمام عمل میں جہانگیر ترین نے سب سے زیادہ کار آمد کردار ادا کیا ہے۔
یہ تنقید بالکل جائز ہے کہ جہانگیر ترین عمران خان کے قریب کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے تھے۔ لیکن یہ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ دوسروں سے دوری کی اس پالیسی کا اصل رکھوالے تو عمران خان خود تھے۔
چوں کہ خان صاحب کو ایک کارآمد، بااثر، صاحب ثروت اور کسی معاملے پر انکار نہ کرنے والے کارندے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے لہذا ایک باقاعدہ لائحہ عمل کے تحت عمران خان نے جہانگیر ترین کو بطور خصوصی معاون کے طور پر نہ صرف متعین کیا بلکہ اس کے ذریعے وہ ہر کام کروایا جس کو کرنا ضروری یا مجبوری تھا مگر جس میں ہاتھ ڈالنے سے خان صاحب کو ذاتی کوفت و کراہت محسوس ہوتی تھی۔
جہانگیر ترین عمران خان کی وہ کنجی تھی جس سے ہر تالا کھلتا تھا۔ عموما ایسی کنجیوں کو گلے سے لگایا جاتا ہے یا گردن کے ساتھ لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔ یہی پوزیشن جہانگیر خان ترین کی تھی۔ اس وجہ سے اس نے وہ مرکزیت حاصل کی جو دوسروں کے حسد اور اس کے اپنے ناقابل تسخیر ہونے کے زعم کا باعث بھی بنی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان جہانگیر ترین کے پاس موجود اس تمام سیاسی اور ذاتی داستان کو چھپانے کا کیا بندوبست کر پائے گا جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی، کانوں سے سنی اور جس کے ان گنت ابواب اپنے ہاتھوں سے تحریر کیے؟ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جہانگیر ترین آنے والے دنوں میں کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ فی الحال تو انہوں نے صرف جھلکیاں دکھانے پر اکتفا کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ انہوں نے کتنے افراد ادھر ادھر سے اکٹھے کر کے پی ٹی آئی میں شامل کیے اور کیسے اس ’لڑی‘ کے ’موتیوں‘ کو چنا جس کو عمران خان وزارت عظمی کے طور پر اپنے گلے پر سجائے ہوئے ہیں۔
ظاہر ہے جب تک کمیشن کی طرف سے حتمی رپورٹ نہیں آ جاتی جہانگیر ترین اپنی پوری پٹاری نہیں کھولیں گے۔ وہ اب بھی یہ توقع لگائے ہوئے ہیں کہ شاید کمیشن رپورٹ میں ان پر لگنے والے الزامات کو زائل کرنے کی کوئی راہ نکل آئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر صنم کو لے ڈوبنے میں کیوں کر ہچکچائیں گے؟ اتنا جہانگیر خان ترین کو بھی علم ہے کہ اسلام آباد میں اس وقت کسی بھی طرم خان کی کرسی پکی نہیں ہے۔