پوری دنیا میں کرونا (کورونا) وائرس کو ایک طبی مسئلے اور انسانی المیے کے طور پر لیا جا رہا ہے، پاکستان میں البتہ یہ سیاسی چاند ماری کا عنوان بنا دیا گیا ہے۔ یہی عالم رہا تو کچھ عجب نہیں، آئندہ انتخابات کے وقت سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو اکھاڑہ بنا دیں کہ ہمیں انتخابی نشان میں تیر اور بلا نہیں، کرونا وائرس چاہیے۔
وفاق میں نونہالان انقلاب داد شجاعت دے رہے ہیں اور سندھ میں بھٹو صاحب زندہ ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے ان دونوں حکومتوں نے کرونا وائرس کی بجائے ایک دوسرے سے نمٹنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ ان کے نزدیک کرونا وائرس ایک طبی چیلنج یا انسانی المیہ کم اور سیاسی امکانات کا جہانِ تازہ زیادہ ہے۔ ہر دو اطراف کے رویے پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ لوگ اب مرتے ہیں تو مر جائیں، سیاسی امکانات کا جہانِ نو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
دستیاب قومی سیاسی قیادت میں یہ صرف عمران خان ہی ہیں جن سے کسی درجے میں حسن ظن رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن عمران خان کی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بے رحم حقیقت سامنے آتی ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی کرونا کو ایک سیاسی امکان کے طور پر لیا ہے اور ان کی جملہ کاوشوں کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی امکانات کے اس جہانِ تازہ سے، جس حد تک ممکن ہو، جھولیاں بھر لی جائیں۔
اتنے بڑے چیلنج نے ہماری دہلیز پر دستک دی لیکن عمران خان اپنی افتاد طبع سے بلند نہ ہو سکے۔ بجائے اس کے کہ وہ سیاسی قیادت کو ساتھ بٹھا کر ایک جامع اور متفقہ قومی پالیسی تشکیل دیتے، انہوں نے اکیلے بروئے کار آنے کا فیصلہ کیا۔
پہلا مرحلہ کرونا ٹائیگر فورس کا قیام تھا۔ سب کو معلوم ہے ٹائیگر وہ اپنے کارکنان کو کہتے ہیں اور یہ لفظ تحریک انصاف سے ایسے ہی منسوب ہے جیسے جیالا پیپلز پارٹی سے۔ اس سے ایک خاص گروہی تاثر جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اسی تناظر میں ٹائیگر فورس پر اعتراض کیا۔ ان کے خیال میں اتنے بڑی المیے سے نبٹنے کے لیے بنائی جانی والی فورس کی شناخت گروہی نہیں بلکہ قومی ہونی چاہیے تاکہ ساری قوم سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر اس کام میں شریک ہو سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جائز اعتراض تھا لیکن اسے ٹھکرا دیا گیا۔ اس فورس کا کوئی اور نام بھی ہو سکتا تھا۔ پاکستان والنٹیئرز، قومی رضاکار یا کوئی بھی بھلا سا نام چنا جا سکتا تھا۔ لیکن وفاق نے سب کو ناراض کر لیا مگر نام نہیں بدلا۔ سوال یہ ہے کہ وفاق کو ’ٹائیگر فورس‘ پر اتنا اصرار کیوں تھا؟ اس کا اس کے سوا اور کیا جواب ہو سکتا ہے کہ وفاق کی ترجیح انسانی المیہ نہیں، سیاسی امکانات تھے۔ اور ان امکانات پر سمجھوتہ کر لینا سیاسی مفادات کے تقاضوں کے خلاف تھا۔
عمران خان صاحب کا تازہ بیان بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی ترجیحات میں سر فہرست یہ نہیں کہ کرونا سے کیسے نبٹنا ہے بلکہ ان کی ترجیح میں سر فہرست یہ ہے کہ اس موقعے سے سیاسی فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔ چنانچہ وہ ایک غریب پرور انقلابی رہنما کا تاثر دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’حکمران اشرافیہ نے فیصلہ کیا کہ ملک میں لاک ڈاؤن کرنا ہے لیکن یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ دیہاڑی دار کا کیا بنے گا۔ امیروں نے سوچا کہ یہ تو امیروں کو بھی ہو رہا ہے تو وہ ڈر گئے اور ایک ایلیٹ نے فیصلہ کر لیا کہ سارے ملک کے لیے کہ لاک ڈاؤن کرنا ہے۔‘
لاک ڈاؤن ہونے یا نہ ہونے پرتو دو آرا ہو سکتی ہیں لیکن سوال یہ ہے یہ حکمران اشرافیہ کون ہے جس پر جناب وزیر اعظم برس پڑے؟ یہ امیر کون تھے جنہوں نے ملک کے لیے فیصلے کیے؟ یہ کون سی ایلیٹ ہے جو جناب وزیر اعظم سے پوچھے بغیر فیصلے کر دیتی ہے؟ وزیر اعظم کہنا کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ بے بس ہیں؟ کیا فیصلے کوئی اور کر رہا ہے؟کیا وزیر اعظم کو کچھ خبر ہے وہ کیا کہے جا رہے ہیں ا ور اس وارفتگی میں غلطی ہائے مضامین کی فہرست کتنی طویل ہوتی جا رہی ہے؟
سندھ حکومت کا بھی یہی حال ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت اب صوبائی معاملہ ہے اور اس کے لیے صوبوں کو اچھے خاصے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں۔ لیکن سندھ میں ہو کیا رہا ہے؟ فنڈز تو لے لیے اور اٹھارویں ترمیم کے فضائل بھی بیان کر دیے کہ ہم نے صوبوں کو خود مختار بنا دیا۔ لیکن عالم یہ ہے سندھ اپنے ہسپتال خود نہیں چلا پا رہا اور پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کے نام سے 50 ہسپتال این جی اوز کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔
کیا یہ کوئی معمولی سانحہ ہے کہ سندھ ہیلتھ بجٹ کا تقریباً 70 فیصد پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشی ایٹو اور این جی اوز لے جاتی ہیں۔ اب عالم یہ ہے کراچی میں سینیئر ڈاکٹر اس لیے جاں بحق ہو جاتے ہیں کہ شہر بھر میں ان کے لیے کوئی وینٹی لیٹر دستیاب نہیں ہوتا۔ لہجے کا آتش فشاں مگر تھمنے میں نہیں آتا۔ جلال پادشاہی پھنکارتا پھر رہا ہے۔
سندھ حکومت کا یہ خیال ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھلے صحت اب صوبائی معاملہ ہے اور صوبہ اس کے لیے وفاق سے بھلے بھاری رقم لے چکا ہے لیکن کرونا وائرس سے نمٹنے کی جملہ ذمہ داری صرف وفاق کی ہے اور وفاق کو سینگوں پر لیے رکھنا ہی سیاسی مفادات کا اولین تقاضا ہے۔ چنانچہ صوبائی وزرا کے خیال میں چند وفاقی وزرا کو گرفتار کر لیا جائے تو سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وفاقی حکومت کو نہ اپنی گومگو کی کیفیت سے کوئی غرض ہے نہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے حالات سے کوئی پریشانی۔ ان کے خیال میں ملک بھر میں اگر کہیں حالات خراب ہیں تو وہ سندھ ہے۔
شروع میں مراد علی شاہ نے کچھ اچھے اقدامات کیے تو ان کی تحسین کی گئی۔ وفاقی حکومت کے عمائدین اور تحریک انصاف کے وابستگان کی غالباً اب اولین ترجیح یہ ہے کہ اتنی دھول اڑا دی جائے کہ یہ اتفاقی نیک نامی بھی گرد میں کہیں دب کر رہ جائے اور میدان صرف کرونا ٹائیگرز کے نام رہے۔
ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: ’سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔‘ سوچ رہا ہوں، سینے میں دل تو نہیں ہوتا، تو کیا آنکھوں سے وضع داری بھی گئی؟