قبائلی خاصہ دار فورس کا مستقبل کیا ہے؟

قبائلی اضلاع میں کوئی خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا خواہش مند ہے تو کوئی خاصہ دار کی حثیت برقرار رکھنے کا۔

سابقہ فاٹا کے خیبر پحتونخوا میں انضمام کے بعد قبائلی علاقوں میں امن قائم رکھنے والی خاصہ دار فورس کی حیثیت کا بڑا مسئلہ ابھر آیا ہے۔ کوئی خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنے کا خواہش مند ہے تو کوئی خاصہ دار کی حثیت برقرار رکھنے کی خواہش رکھتا ہے۔ دونوں صورتِ حال میں فورس کے اہلکاروں کی سب سے بڑی پریشانی اپنی نوکریوں کو برقرار رکھنا بنی ہوئی ہے۔

تقسیم سے پہلے برطانوی انگریزوں نے اپنا حکومتی نظام (رٹ) چلانے کے لئے قبائل کو مراعات یعنی ملکی و خاصہ داری سے نوازا تھا۔ سنہ 1901 میں پہلی دفعہ مراعات کے نام پر خصہ دار نوکریوں کو متعارف کروایا گیا۔

خاصہ دار فورس ایک مورثی فورس ہے یعنی خاندان کا کوئی فرد یا کوئی دور کا رشتہ دار جا کر ڈیوٹی سرانجام دے سکتا ہے۔ اس سسٹم کے تحت اس نوکری میں پورے خاندان کا حصہ شامل ہے۔ نوکری ایک شخص کے نام پر ہوگی مگر تنخواہ پورے قبیلے میں تقسیم ہوگی۔

شروع میں 200 کے قریب اہلکاروں کو بھرتی کیا گیا تھا اور بعد میں یہ تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی گئی البتہ ڈیوٹی اور تنخواہوں کی تقسیم کا طریقہ کار وہی انگریزوں کے دورِ حکومت کا چلا آرہا ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد مختلف حکومتوں نے نہ صرف خاصہ دار فورس کو برقرار رکھا بلکہ بعد آزاں لیویز فورس کا اضافہ بھی کردیا گیا۔ لیویز فورس کی نوکری خاندانی نہیں بلکہ میرٹ پہ ملتی ہے اور ذاتی حثیت میں نوکری کرنی پڑتی ہے۔

ایف سی آر کو جس طرح کالا قانون کہا جاتا تھا وہ 100 فصید درست بات تھی۔ پولیٹکل ایجنٹ کا فیصلہ آخری سمجھا جاتا تھا۔ کوئی بھی ان کو عدالت میں چلینج نہیں کرسکتا تھا اورمیرٹ کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس طرح خاصہ دار فورس کی اکثر نوکریوں کو بھی خان و خوانین یا ملکان کے خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

فل وقت ایک درجن سے زیادہ ایسے لوگ بھی ہیں جو ایک شخص کے نام پر خاصہ دار فورس کی دو دو نوکریاں کر رہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو دوسرے محکموں میں سرکاری ملازمین ہیں اور ان کے نام خاصہ دار فورس کی نوکریاں بھی ہیں جبکہ لیویز میں ایسا نہیں ہے اور اس میں ذیادہ تر عام شہری بھرتی ہوئے ہیں اور ذاتی طور پر ڈیوٹی بھی سرانجام دے رہے ہیں۔ 

فورس سراپا احتجاج

قبائلی اضلاع میں اس وقت خاصہ دار فورس اور لیویز فورس سراپا احتجاج ہیں اور اپنی حثیت و کردار کی یقین دہانی چاہتے ہیں۔ دونوں فورسز کے اہلکار ایک ساتھ احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ دونوں کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام ہونے پر وہ بھی خوش ہیں لیکن فاٹا ٹاسک فورس کمیٹی میں فیصلہ ہوا تھا کہ خاصہ دار اور لیویز فورس کو پولیس جیسے اختیارات تفویض کیے جائینگے یا پھر انہیں پولیس میں ضم کیا جائیگا مگر آج خیبر پختونخوا حکومت اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

لیویزاور خاصہ دار فورس کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پنشن، پروموشن اور ریٹائر ہونے کے بعد خالی آسامیوں پر ان کے بیٹوں کو بھرتی کرنے اور دیگر مراعات کے مطالبوں کا تحریری فیصلہ نہ ہونے تک پولیس کو علاقے میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔    

مزید پڑھیے: فاٹا میں کون سا نظام چلے گا، پولیس یا خاصہ داری؟

ضلع مہمند سے جہانگیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خاصداری ایک فورس نہیں یہ مراعات کا نام ہے۔ انہوں نے کہا: ’پانچ سال تک اس کو مراعات ہی رہنا چاہیے بعد میں پولیس میں ضم کیا جائے۔‘

ضلع مہمند کے لیویز اہلکار عراق خان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے شانہ بشانہ لیویز نے بھی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ انہوں نے کہا: ’نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لیویز فورس کا فرنٹ لائن کردار رہا ہے لیکن حکومت ان کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر 23 ہزار سے زائد خاندانوں سے روزی روٹی چھیننے کے در پر ہے۔‘

وانا میں خاصہ دار فورس کے اہلکار محمد طارق نے بتایا کہ ان کے چچا عبدالقیوم بیس سال پہلے وفات پا چکے ہیں اور ان کے خاندان کی خاصہ داری بھی انہی کے نام ہے۔ لیکن گذشتہ ایک سال سے انہیں تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح سینکڑوں دوسرے خاصہ داروں کے تنخواہیں بھی بند ہیں۔

تنخواہوں کی بندش پر فٹا سیکریٹیریٹ کے لا اینڈ آرڈر ڈپارٹمنٹ کے ایک آفسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تمام ملازمین کی تنخواہیں بینک اکاؤنٹ میں بھیجی جائیگی۔ انہوں نے کہا: ’جب تک یہ لوگ اپنے مرحومین کے ناموں سے دوسرے ناموں پر خاصہ داری کو تبدیل نہی کریں گے تب تک یہ مشکل رہے گی۔ لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہے کہ پرانی بند تنخواہیں ان کو مل جائیں اور آئندہ کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔‘

لا اینڈ آرڈر ڈپارٹمنٹ کے افسر کے مطابق خاصہ دار اور لیویز فورس کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ لیویز میں مخصوص شخص کی نوکری ہوتی ہے جبکہ خاصہ دار فورس کی نوکری ایک خاندان کو ایف سی آر کے تحت مراعات دی گئی ہوتی ہے۔

اس کے علاوا خاصہ دار فورس میں شامل زیادہ تر لوگ 20 یا 30 سال پہلے وفات پا چکے ہیں لیکن ان کے خاندان والوں کو تنخواہیں باقاعدگی سے دی جاتی ہیں۔ خاصہ دار فورس میں عوضی (ایک شخص کی جگہ دوسرے شخص  کا کام کرنا) کی سرکاری سطح پر اجازت ہے۔

ان کا مستقبل کیا ہے؟

سرکاری اعداد شمار کے مطابق قبائلی اضلاع میں کل 16 ہزار 53 خاصہ دار اہلکار ہیں جن میں ان کی سب سے زیادہ تعداد جنوبی وزیرستان میں ہے جہاں تین ہزار چھ سو 48 خاصہ دار ہیں۔ خیبر میں دو ہزار نو سو 57، مہمند میں دو ہزار سات سو 64، شمالی وزیرستان میں دو ہزار 33، کرم میں نو سو 29، اورکزئی میں نو سو 62، باجوڑ میں پانچ سو چارجبکہ ایف آر یعنی نیم قبائلی اضلاع میں دو ہزار دو سو 56 خاصہ دار اہلکار کام کررہے ہیں۔

اسی طرح لیویز فورس کی تعداد 11 ہزار آٹھ سو 68 ہے جس میں باجوڑ میں دو ہزار دو سو 32، مہمند میں ایک ہزار دو سو ایک، خیبر میں ایک ہزار دو سو 84، اورکزئی میں ایک ہزار چھ سو 32، کرم میں ایک ہزار آٹھ سو چھ، شمالی ویزستان نو سو دو، جنوبی وزیرستان میں آٹھ سو 85  ایف آر علاوقوں میں ایک ہزار نو سو 16 اہلکار ہیں۔

گذشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے باجوڑ میں جلسے میں اعلان کیا کہ سابقہ فاٹا میں  خاصہ دار اور لیویز فورس دونوں کو پولیس میں ضم کیا جائے گا اور مذید آٹھ ہزار جوانوں کو بھی بھرتی کیا جائے گا۔

اگر وزیراعظم کے اعلان پر عمل ہو بھی جائے تب بھی ہی یہ ایک مشکل مرحلہ ہوسکتا ہے۔ خاصہ دار بغیر کسی ٹریننگ کے کام کرتے ہیں۔ انہیں خود مختار فورس بنانے کے لیے ان کی پولیس کی طرح تربیعت کرنی ہوگی اور پولیس یا لیویز کی طرح ریگیولرایز کرنا ہوگا تو ہی خاصہ دار ایک منظم فورس کی شکل اختیار کرے گی۔

اس کے علاوا خاصہ داری کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر خاندانوں کے اپس میں میں تنازعت بھی سامنے آئیں گے۔   

              

                                                                                                         

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان