’ارطغرل‘ میں حائمہ حاتون اور ان کی بڑی بہو سلجان کے درمیان تُو تُو میں میں سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ساس اور بہو کی جنگ وہ معرکہ ہے جو صدیوں سے بپا ہے۔
یہ ایک ایسی چپقلش ہے جسے دو قبائل کی جنگ بھی کہا جاتا ہے جو ممکن ہے قیامت تک جاری رہے۔ اس معرکہ آرائی میں ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جستجو یہ ہوتی ہے کہ گھریلو سیاست کی بساط پر کچھ ایسی چالیں چلی جائیں جس میں مخالف کو مات ہو۔
ساس، بطور بہو اپنے ساتھ بیتی ہوئی بپتا کا انتقام بہو سے چن چن کر لیتی ہیں، کوئی بھی ماضی کو فراموش کرکے نیا باب کھولنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ ساس کی کوشش ہوتی ہے کہ بہو اور بیٹے کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ’سپوت‘ کی کمائی پر جس طرح اس کی شادی سے پہلے حق تھا وہ برقرار رہے۔ ادھر بہو بازی لے جانے کی فکر میں ساس کے تمام ارادوں کو خاک میں ملانے کے در پے ہوتی ہے۔ اس مقصد کو پانے کے لیے کہیں عامل بابا اور پیروں کی مدد لی جاتی ہے تو کبھی میکے میں بیٹھی ماں کے تجربے کی اور کہیں تو اس جنگ میں شوہر کو والدین کے مقابلے پر اتار دیا جاتا ہے۔ ابتدائی طور پر باورچی خانہ کا مورچہ سنبھالنے کی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔
پاکستان اور بھارتی فلموں کے لیے تو ساس بہو کا موضوع پسندیدہ رہا ہے۔ بھلا ہو ایکتا کپور کا جنہوں نے ساس اور بہو کی اس لڑائی میں دونوں فریقین کو نت نئے گْر اور داؤ پیچ خوب سکھا دیے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ اب اچھی بہوئیں اور ساسیں صرف فاطمہ ثریا بجیا یا حسینہ معین یا بانو قدسیہ کے ڈراموں کا ہی خاصہ تھیں۔ کیونکہ ذرا جائزہ تو لیں ہمارے یہاں کے موجودہ ڈراموں کا تو ایک درجن سے زائد تخلیقات میں کہیں نہ کہیں آپ کو ظالم ساس یا سنگ دل بہو کی عکاسی مل ہی جائے گی۔ جس طرح اپوزیشن، سرکار سے ناراض رہتی ہے، ویسے ہی ان ڈراموں میں ساس اور بہو بھی ایک دوسرے سے۔ اور ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے وہ وہ ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساس کو بہو میں کن خوبیوں کی تلاش ہوتی ہے؟ یہ بڑا ٹیڑھا اور پیچیدہ سوال ہے۔ عام طور پر سگھڑ، اچھی باورچن اور فرماں بردار ہونا اس معیار پر پورا اترنے کی اولین شرائط ہیں۔ ساتھ ساتھ جلدا زجلد گھر کے سونے آنگن میں ننھے منے پھول کھلانا بھی اس کی ذمے داری میں شامل ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ڈراموں اور فلموں میں جب بھی ماں کا بیٹے سے مکالمہ ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنی زندگی میں ہی ’پوتے‘ کو گود میں کھلانے کی خواہش کرتی ہیں۔ کہیں بھی ساس پوتے کی جگہ پوتی کی آرزو بیان نہیں کرتیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ان دیکھی جنگ میں سگی بھتیجی یا بھانجی جب بہو کا روپ دھارکر قبیلے میں آتی ہے تو کل کی خالہ یا پھوپھی اچانک ساس بن کر جنگجو سپہ سالار میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ نگاہوں اور رویوں میں تبدیلی آتی ہے۔ پابندیوں کے نت نئے پہرے لگادیے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بہو بھی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے کمر کس لیتی ہے۔
ویسے یہ ضروری نہیں کہ ساس ہی ظالم اور سفاک ہوں۔ کچھ بہوئیں ساس کو لوہے کے چنے چبوادیتی ہیں۔ ابتدا سے ہی وہ ساس صاحبہ کی سلطنت میں ایک کے بعد ایک بھونچال لاتی رہتی ہیں۔ ہماری بیگم کی ایک سہیلی ہفتے میں چار دن میکے رہتی ہیں اور لبوں پریہی شکوہ ہوتا ہے کہ ساس صاحبہ آرام ہی نہیں کرنے دیتیں، جینا حرام کررکھا ہے۔ اب ’امی کے گھر‘ میں رہ کر امی سے ہی محاذ میں سرخرو رہنے کا فن سیکھا جاتا ہے۔ وہی امی جو ہو سکتا ہے اپنی کسی بہو سے تنگ ہوں، وہ اپنی بیٹی کو اس کی ساس سے نمٹنے کے طریقوں سے لیس کر کے سسرال بھیج رہی ہوتی ہیں۔
یہ کہانی صرف برصغیر کے ہر گھر کی نہیں، اب تو یہ آگ پوری دنیا میں پھیل گئی ہے۔ جس کا اندازہ برطانوی ملکہ الزبتھ اور پوتے کی بہو میگن مارکل کے درمیان سرد جنگ سے لگایا جا سکتا ہے۔ شہزادی نے تخت و تاج اورعیش و عشرت پر اپنی آزادی کو ترجیح دیتے ہوئے ’میرا میاں میری مرضی‘ کا اصول اپنایا۔ کچھ ایسا ہی تناؤ تو اُس وقت بھی دنیا نے دیکھا تھا جب ہسپانوی شہزادی لیٹیزا اور ساس ملکہ صوفیہ بھر ی محفل میں ایک دوسرے سے الجھ گئی تھیں۔
بات کی جائے پاکستان کی تو اس کے لیے امریکہ ہر دور میں ساس ہی رہا ہے۔ اس بات کا اعتراف سابق امریکی سیکریٹری ہیلری کلنٹن بھی کر چکی ہیں۔ بہو پاکستان ساس امریکہ کے لیے آسمان سے تارے بھی توڑ لائے لیکن ساس یہی کہتی رہتی ہے کہ ’ڈو مور!‘
اب اس ’ڈو مور‘ کے چکر میں مسائل، اختلافات اور شک و شبہات جنم لیتے ہیں، دل میں نفرتوں کے کانٹے پنپتے ہیں۔ کاش اس مطالبے سے دونوں فریقین دست بردار ہو کر رشتوں کی اصل مٹھاس، چاشنی اور محبت کا لطف اٹھائیں‘ جیسے کچھ مثالی بہوئیں اور ساس اٹھاتی ہیں، دلہنیں بھی اس بات کا احساس کریں کہ ان کا شوہر صرف ان کا نہیں بلکہ ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بھی رشتہ رکھتا ہے۔ کچھ ایسا ہی خیال ساس صاحبان دل بڑا کر کے کریں تو ممکن ہے کہ زندگی گلزار ہو جائے۔