کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس کرونا زدہ ماحول میں وہ دھوم دھڑکے کے ساتھ کوئی تقریب رچا پائے گا۔ اب ایسے میں ہمارے کزن کی شادی جو عید کے بعد طے ہے وہ واقعی ’مسئلہ فیثا غورث‘ بن گئی ہے جسے حل کرنے کے لیے ذہین خاندانی افراد کی مختصر سی ہنگامی ’گول میز کانفرنس‘ بلالی گئی۔
ایجنڈا یہی تھا کہ کیا کرنا چاہیے؟ اس کابینہ اجلاس کی خاص بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ روایتی اجلاسوں کے برعکس یہاں سب کی سنی گئی، کسی ایک نے ڈنڈا اٹھا کر اپنا حکم چلانے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کسی کو بھی پل بھر کو محسوس ہوا کہ وہ اجلاس میں ہوتے ہوئے ’قرنطینہ‘ میں ہے۔
خوش آئند بات یہ تھی کہ دلہے میاں نے فخریہ پیش کش کر دی تھی کہ جو بھی فیصلہ ہو گا، وہ اسے تسلیم کریں گے۔ وہ تو یہاں تک آمادہ تھے کہ موٹر سائیکل پر جا کر دلہنیا رانی کو گھر لے آئیں۔ غالباً انہیں خود احساس تھا کہ مرض میں مبتلا ہو کر’گوشہ تنہائی‘ ان کو ناگ بن کر ڈسے گی۔ اس صورت حال میں وہ شادی کا میلہ لگا کر خود کو اکیلا کرنے کے موڈ میں کسی صورت نہیں تھے۔
ان کے والد صاحب اور ہمارے ماموں نے ارکان سے رائے طلب کرنا شروع کی تو احساس ہوا کہ واقعی جنگ ہو یا بحرانی کیفیت ہمارے ’جذبہ ایمانی‘ کو کوئی متزلزل نہیں کر سکتا۔ ایک کزن فرما رہے تھے کہ ’ارے شادی تو ایک دفعہ ہی ہوتی ہے بھلا ایسا کیا کہ چار لوگ جائیں اوردلہن لے آئیں۔ جب تک شور شرابا نہیں ہو گا پتہ کیسے چلے گا دو خاندانوں کا تعلق جڑ رہا ہے؟‘
یعنی اس تعلق جوڑنے کے چکر میں وہ دوسروں کی زندگیوں کو بے تعلق کرنے پر اڑے ہوئے تھے۔ حفاظتی اقدامات کا رٹا لگاتے ہوئے بولے کہ ’سب ساتھ میں سینیٹائزر رکھیں، ماسک لگائیں، ہاتھ نہ ملائیں اور دور دور سے مبارک باد دیں اور و
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صول کریں۔‘
ایک دور کے رشتے دار قریب آتے ہوئے بولے، ’لو یہ کیا بات ہوئی؟ اتنا اہم سماجی اور دینی کام ہونے جارہا ہے اور ہم گلے بھی نہ ملیں، جب تک جھپی نہ ماری جائے مزا ہی نہیں آتا اور بھائی یہ میل میلاپ سے کرونا نہیں ہوتا، دیکھا نہیں کہ راشن اور احساس پروگرام وصول کرنے والوں کا کس قدر جمگھٹا لگا ہوتا ہے۔ ہم نے تو نہیں سنا کہ ان میں سے کسی کو یہ وائرس لگا ہو۔‘
ان کے فرمودات کی ماموں نے نفی کرتے ہوئے اور ممکنہ خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے موقف پیش کیا کہ ’اچھا موقع ہے، لڑکی والوں کا بھی کم خرچہ ہو گا۔ ان پر اتنا بوجھ نہیں پڑے گا۔ بہتر تو یہ ہے کہ قاضی بلا کر بس تین بول پڑھوادیے جائیں۔ یہ بھی سوچیں کہ فضول قسم کی رسومات سے بھی جان چھوٹ جائے گی پھر سب سے بڑھ کر یہ غیر ضروری کھانے پینے پر جو بے جا اصراف ہوتا ہے اس سے بھی نجات مل جائے گی۔ دونوں گھرانوں کی بڑی رقم کی بچت ممکن ہوسکے گی۔‘
وہ پھوپھی جو اس رشتے کو ختم کرانے میں ’محلاتی سازشوں‘ میں مصروف رہی تھیں اچانک ’ہمدرد‘ بن گئیں۔ فرمانے لگیں، ’ارے بھائی جان ایسے کیسے؟ دنیا کو پتہ تو چلے کہ شادی ہوئی ہے۔ جرم تھوڑی کیا ہے کہ چپ چاپ جائیں اور اپنے سائے کو بھی ہوا نہ لگنے دیں؟ خوشی کا موقع ہے خوشیوں کے ساتھ منائیں۔‘
محترمہ نے اپنی گفتگو میں در پردہ جھوٹی شان بڑھانے کے ایسے قصیدے پڑھے جو ممکن ہے کہ عام حالات میں کارگر ثابت نہ ہو۔ ماموں جان کا کہنا تھا کہ دلہے میاں تو موٹر سائیکل پر لڑکی کو لانے پر رضا مند ہیں تو اس میں آخر حرج کیا ہے؟
اس پر ایک اور بزرگ نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’نہ بابا نہ موٹر سائیکل کی تو ڈبل سواری تک پر بندش ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پولیس والے موٹر سائیکل ہی ضبط کر لیں اور دلہن پیدل گھر تک جائے۔‘
پھوپھی نے ایک بار پھر لقمہ دیا کہ ’وہ شادی ہی کیا جس میں مہمان نہ ہو۔‘ قطعی طور پر ہماری یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ مشور ہ دے رہے ہیں یا پھر تباہی کی طرف اور زیادہ دھکیل رہے ہیں۔ ایسے میں دلہے کی بھابھی بھی اس جنگ میں ’ان دیکھی تلوار‘ کے ساتھ کود پڑیں۔ کہنے لگیں، ’ہم خواتین کا تو کوئی سوچ ہی نہیں رہا، اتنے ارمان تھے دیورانی کو لانے کے، برسوں سے پلان بنا رکھا تھا کہ اپنی شادی کی ساری ادھوری کسر نکالوں گی، اس طرح کی روکھی پھیکی شادی میں کیا سارے بھاری اور قیمتی پہناوے اور زیورات الماریوں میں ہی بند رہیں گے؟ اپنی شادی میں نہ ڈھنگ سے مووی بن سکی نہ فوٹو سیشن ہوسکا۔ اب یہ سارے خواب سچ کرنے کا وقت آیا تھا اور آپ لوگ ’لاک ڈاؤن لاک ڈاؤن‘ کی صدائیں لگا رہے ہیں۔‘
ایک عمر رسیدہ خاتون گویا ہوئیں، ’ہم نے تو سوچا ہوا ہے کہ لاک ڈاؤن ہے تو کیا ہم تو بیوٹی پارلر سے ہی جا کر تیار ہوں گی۔‘
جس پر وہ بزرگ جو ساری عمر نمود و نمائش کے خلاف لیکچر دے دے کر آخرت میں اعمال کے کام آنے کی گردان کرتے تھے وہ فرمانے لگے، ’وہ تو کوئی مسئلہ نہیں، گھر میں بھی بلا کر یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ کیا میں نے اپنا ’خط‘ نہیں بنوایا تھا حجام کو گھر بلا کر؟‘
پھوپھی نے یہاں اُس وزیر کا کردار ادا کیا جو حالات چاہے کیسے بھی ہو، حاکم وقت کے سامنے چین کی بانسری بجاتا ہے۔ کہنے لگیں، ’نہیں بھائی جان، دلہن پر نکھار تو بیوٹی پارلر جا کر ہی آتا ہے۔‘
ماموں جان نے ہماری جانب بے بسی اور لاچارگی سے دیکھا اور ان کی آنکھوں کو پڑھتے ہوئے ہمارا کہنا صرف یہ تھا کہ ’اس موقعے کو غنیمت جان کر سادگی سے یہ شادی نمٹائیں۔ بالخصوص ایسے میں جب لڑکی والے بھی اس کی تقلید کرنے پر آمادہ ہیں۔ ان چونچلوں پر وقت ہی نہیں رقم بھی ضائع ہوتی ہے۔ زیادہ ہے تو صورت حال بہتر ہونے پر مہمانوں کو استقبالیہ دے کر جان چھڑا لیں۔ فی الحال تو چار سے پانچ افراد کا انتخاب کر لیں جو دلہن لے آئیں۔‘
ہمیں علم تھا کہ ہم نے درحقیقت بارود کو تیلی دکھا دی ہے۔ جبھی ہر جانب سے ایسی ہم پر گولہ باری ہوئی کہ اس اجلاس سے بائیکاٹ کا خیال بھی دل میں آیا۔ کوئی بولا، ’ذرا اب آپ ہی بتا دیں کہ یہ چار پانچ افراد کون ہوں گے؟ دولہا کے اپنے گھر میں چھ افراد ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان میں سے بھی کچھ نہ جائیں؟ اگر فلاں کو نہ بلایا تو یاد رکھنا ساری زندگی اس چوکھٹ پر قدم نہ رکھے گا۔‘
صورت حال اُس وقت اور سنگین ہو گئی جب ایک اور صاحب فرمانے لگے کہ شادی ہال کی بکنگ ہوچکی ہے۔ وہ بضد رہے کہ شادی اور آگے بڑھا دی جائے ورنہ ایڈوانس رقم کو بھول جائیں۔
پھر کیا تھا سب اسی معمولی سی ایڈوانس رقم کے خاطر شادی آگے بڑھانے پر زور دینے لگے۔ لیکن یہاں دولہے میاں نے سب کے فیصلوں کو ’ویٹو‘ قرار دیتے ہوئے اپنی رائے پھر پیش کر دی کہ بس چھ سے سات افراد ہی جائیں گے۔ ایڈوانس رقم ڈوبتی ہے تو ڈوب جائے، بہتر ہے کہ کسی کی زندگی کی دھڑکنیں نہ ڈوبیں۔
دولہے کے فیصلے کے بعد اجلاس میں شریک اکثر ارکان نے اپنی شکست پر شادی میں احتجاجاً شرکت نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ ہمیں خوشی اس بات کی تھی کہ دولہا میاں نے سمجھ داری اور ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات کی سنگینی کا احساس کیا۔
اگر آپ بھی آنے والے دنوں میں کسی ایسے اجلاس میں شریک ہوں تو فخریہ انداز میں اس دولہے کی مثال اور دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ مانا کہ شادی صرف ایک ہی دفعہ ہوتی ہے لیکن زندگی بھی صرف ایک ہی بار ملتی ہے۔