پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا کہنا ہے کہ امریکی خاتون شہری سنتھیا ڈی رچی ’اپنے مزموم عزائم کو لے کر پاکستان کے اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹا رہی ہیں۔‘
امریکی شہری سنتھیا ڈی رچی نے اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو اپنے ایک حالیہ مکتوب میں لکھا ہے کہ وہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی سرگرمیوں کی گذشتہ کئی سالوں سے تحقیقات کر رہی تھیں تاہم وہ یہ کام کس حیثیت سے کر رہی تھیں اس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے شمالی وزیرستان سے منتخب قومی اسمبلی کے رکن اور پی ٹی ایم کی کور کمیٹی کے رکن محسن داوڑ سے بات کی تو انہوں نے اس کو فوری طور پر رد کیا۔
’اول تو میں اس خاتون کو اتنا اہم سمجھتا ہی نہیں ہوں کہ اس پر بات بھی کروں لیکن آپ کے سوال پر اتنا کہوں گا کہ پاکستان کو اس وقت بہت سے اہم مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا حل نکالنے کے لیے سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کی ری گروپنگ ہو رہی ہے، ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے، کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کا الگ سامنا ہے جس سے حکومت کی ناکامی اور نااہلی بےنقاب ہو رہی ہے۔‘
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پی ٹی ایم کو آغاز سے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں را اور این ڈی ایس سے ملک مخالف سرگرمیوں کے لیے فنڈز لیتی ہے۔ تاہم پی ٹی ایم اس کی سختی سے انکار کرتی ہے۔
سنتھیا ڈی رچی نے اپنے ایک ٹویٹ میں یہ کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے انہیں ہراساں کرنا تب شروع کیا جب انہوں نے دو سال پہلے پی ٹی ایم اور پی پی پی کے درمیان رابطوں اور تعلقات کی تحقیقات شروع کیں۔
Politicians are accountable to the people. #ZardarisFilthyPPP started harassing me when I began investigating #PTM 2 years ago. I've kept quiet until they leaked my info/attacked my family.
— Cynthia D. Ritchie (@CynthiaDRitchie) June 2, 2020
Now it's go time.
And, sadly, it seems you've blocked me?
All Power To The People! pic.twitter.com/FELACTJWsZ
اپنے ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے وزیر اعلی سندھ کے سپیشل اسسٹنٹ جاوید نایاب لغاری کو کہا کہ وہ خواہ مخواہ کی شکایت کر رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ تو پی پی پی اور پی ٹی ایم کے درمیان نکتوں کو ملا رہی ہیں۔
You're the front man of @Majid_Agha & President PYO. You all deliberately harassed me BEFORE any tweet and the leaked my personal information.
— Cynthia D. Ritchie (@CynthiaDRitchie) June 2, 2020
This 'derogatory remarks' claim is a sham bc you know I'm connecting the dots between #ZardarisFilthyPPP & PTM anti-state activities. https://t.co/4hgpye65qY
محسن داوڑ نے اس سوال کے جواب پر کہ کیا ان کی یا ان کی تحریک کے دوسرے قائدین کے ساتھ سنتھیا کی کبھی کوئی ملاقات ہوئی ہے کہا کہ ’پچھلے سال ڈیڑھ سال سے وہ مجھے بےتحاشا ٹویٹس میں ٹیگ کرتی رہی ہیں۔ اور اکثر لوگوں سے میرا رابطہ نمبر مانگتی رہتی تھیں۔ کئی لوگوں کے ذریعے مجھ سے ملاقات کا وقت بھی مانگا لیکن میں نے نظرانداز کیا۔‘
سنتھیا کو نظرانداز کرنے کی وجہ داوڑ نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کی مشکوک سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ میں ایک سیاسی ورکر رہا ہوں۔ ظاہر ہے مجھ میں لوگوں کو پرکھنے کی سمجھ بوجھ ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کس حیثیت سے مجھ سے ملنا چاہ رہی تھیں۔ خود ہی اپنے آپ کو صحافی بھی کہہ رہی ہیں، انوسٹی گیشن بھی کرتی ہیں اور وی لاگز بھی بناتی ہیں۔ ان سے پوچھیں آپ ہیں کون؟ کس نے آپ کو تحقیقات کا اختیار دیا ہے۔‘
سنتھیا رچی کے اس الزام کے جواب پر کہ پشتون تحفظ مومنٹ کے لوگ انہیں ان کے ٹویٹ کے بعد ہراساں کرنے لگے ہیں، محسن داوڑ نے کہا کہ ہراساں تو سنتھیا پی ٹی ایم کے کارکنوں کو کر رہی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے جب وہ گلالئی اسماعیل کو لکھتی ہیں کہ ان کو پاکستان میں اپنے والدین کی زندگی کی پرواہ کرنی چاہیے۔ اور انہیں خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ہراسمنٹ کی بات کرتی ہیں تو یہ کام وہ خود کر رہی ہیں۔‘
پی ٹی ایم کی خواتین ارکان سے جب اس معاملے پر سوال کیا گیا تو سب نے اس موضوع پر یہ کہہ کر بات کرنے سے انکار کیا کہ وہ درپردہ عزائم رکھنے والی اس غیرملکی خواتین کو اس قابل نہیں سمجھتیں کہ ان پر تبصرے کریں۔
تاہم سابق رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کی حامی خاتون سیاستدان بشری گوہر نے سنتھیا رچی کے حوالے سے اپنے ٹویٹ میں سخت الفاظ میں کچھ دن قبل لکھا تھا کہ ’کس نے ایک امریکی بدزبان کو پاکستان میں ایک سیاسی پارٹی اور تحریک کی تحقیقات کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ہے؟ پی پی پی اوربلاول بھٹو نے تو ہمیشہ کھل کر پشتونوں اور پی ٹی ایم کےمطالبات اور آئینی حقوق کے لیے ان کی حمایت کی ہے۔‘
سینیئر صحافی اور اینکر مبشر زیدی نے بھی یہی سوال اٹھایا کہ وہ کس قانون او رویزے کے تحت یہ تحقیقات کر رہی تھیں؟
I'm asking you under what law and authority you're investigating political parties and rights movements. Your visa conditions doesn't allow you to do that https://t.co/pm6RnRXSak
— Mubashir Zaidi (@Xadeejournalist) June 7, 2020
تنازعے کے آغاز میں اپنے تیز و تند بیانات کے بعد اب لگتا ہے سنتھیا ڈی رچی نے خاموشی اختیار کر لی ہے۔ کئی ٹی وی چینلز پر انہوں نے پہلے پرورگرام میں آنے کی حامی بھری اور پھر انکار کر دیا۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں سوال یہ ہی ہے کہ کیا حکومت اس واقعے کی اور سنتھیا کے دعوے کی تحقیقات کرے گی یا نہیں۔
ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئیر رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے امریکی خاتون سنتھیا رچی کو پچاس ارب ہرجانے کا دوسرا نوٹس بھیج دیا ہے۔ یہ نوٹس سنتیھیا رچی کو بذریعہ کورئیر بھیجوایا گیا ہے جو انہیں نجی ٹی وی چینلز پر انٹرویوز میں سینیٹر رحمان ملک کے خلاف ’ریپ کے بیہودہ و منگھڑت‘ الزامات لگانے پر جاری کیا گیا ہے۔
رحمٰن ملک کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے احکامات اور پیمرا قوانین کے تحت الزامات ثابت ہونے سے پہلے میڈیا ٹرائل ایک جرم ہے۔ اس سے قبل بھی رحمٰن ملک امریکی خاتون کو 50 کروڑ روپے کا نوٹس بھیج چکے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان کی اور بے نظیر بھٹو کی ساخت کو خراب کرنے کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔