اتوار کو انڈیا کے شہر احمد آباد میں ایسٹر کی دعائیہ تقریب کو دو انتہائی دائیں بازو کی ہندو تنظیموں کے افراد نے اس الزام کے تحت روک دیا کہ تقریب میں شریک لوگ مذہب تبدیل کروانے میں ملوث ہیں۔
عینی شاہدین کی جانب سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے کارکن احمد آباد کے علاقے اوڈھاو میں ہونے والی دعائیہ تقریب میں داخل ہوتے ہیں۔ انہوں نے لاٹھیاں اٹھا رکھی ہوتی اور وہ ’جے شری رام‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔
یہ گروہ ہندوتوا سے وابستگی کے لیے جانے جاتے ہیں، جو ایک سخت گیر قوم پرستانہ نظریہ ہے اور ہندو برتری کو فروغ دیتا ہے۔ ان کا ڈھیلا ڈھالا تعلق راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے بھی ہے، جو وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا نظریاتی ماخذ ہے۔ یہ گروہ طویل عرصے سے لوگوں کے مسیحیت اور اسلام اختیار کرنے کے خلاف خلاف مہم چلاتے آ رہے ہیں۔
اگرچہ کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی لیکن اس واقعے نے انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر دھمکانے اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
اوڈھاو پولیس کے انسپیکٹر پرتیک زنزواڈیا نے تصدیق کی کہ یہ واقعہ ومل پارک سوسائٹی کے ایک رہائشی ہال میں منعقدہ مسیحی دعائیہ اجتماع کے دوران پیش آیا، جس میں ایسٹر سنڈے کے موقع پر تقریباً 100 افراد شریک تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے شرکا، جن میں بڑی تعداد خواتین کی تھی، کو روک کر ان کا مذہب پوچھا اور منتظمین پر یہ الزام لگایا کہ وہ ہندوؤں کو مسیحی بنا رہے ہیں جو غیر قانونی عمل ہے۔
پولیس کو موقع پر بلا کر صورت حال پر قابو پا لیا گیا۔ فریقین کو مقامی تھانے لے جایا گیا، جہاں انہوں نے تحریری شکایات جمع کرائیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق، بجرنگ دل کے مقامی نمائندے درشن جوشی نے ایک بیان جمع کرایا جس میں ’تبدیلی مذہب‘ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم انسپیکٹر زنزواڈیا نے تصدیق کی کہ ابتدائی جانچ کے دوران پولیس کو کسی بھی قسم کی تبدیلی مذہب کی سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
ایمانوئل امايداس، جو اجتماع میں موجود مسیحی برادری کے رکن ہیں، نے جوابی شکایت درج کرائی جس میں 10 سے 15 نامعلوم افراد پر دعائیہ تقریب پر دھاوا بولنے اور اجتماع میں خلل ڈالنے کا الزام لگایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ دونوں شکایات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اتوار کی شام تک کسی کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ انسپیکٹر زنزواڈیا نے کہا: ’ہم نے دونوں فریقوں کی شکایات لے لی ہیں اور معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔‘
بجرنگ دل کے علاقائی رابطہ کار جوالت مہتہ نے بعد میں ٹائمز آف انڈیا کو بتایا کہ کارکن اوڈھاو اور نکول کے علاقوں میں مسیحی اجتماعات میں اس بنیاد پر داخل ہوئے کہ انہیں ’اطلاع ملی تھی کہ وہاں تبدیلی مذہب کی سرگرمیاں جاری ہیں۔‘
انڈین قانون کے مطابق زبردستی مذہب تبدیل کرانا کئی ریاستوں میں غیر قانونی ہے، تاہم ان قوانین کی تعریف اکثر مبہم ہوتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے بارہا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
یونائیٹڈ کرسچن فورم کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں انڈیا میں مسیحیوں پر حملوں کے واقعات بڑھ کر 834 ہو گئے، جو گذشتہ سال 734 تھے۔
© The Independent