منگل کی صبح سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر بلوچ مسنگ پرسن کا ہیش ٹیگ کئی گھنٹے تک ٹرینڈنگ کرتا رہا جس میں ایک نوجوان خاتون حسیبہ قمبرانی اپنے دو بھائیوں کی تصاویر اٹھائے روتے ہوئے التجا کررہیں تھیں کہ ان کے گمشدہ بھائی کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔
یہ ویڈیو جلد ہی فیس بک اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹوں پر وائرل ہوگئی تھی۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے علاقے کلی قمبرانی کی رہائشی بائیس سالہ حسیبہ قمبرانی کے مطابق یہ وائرل ہونے والی ویڈیو کوئٹہ پریس کلب کے باہر سالوں سے جاری بلوچ مسنگ پرسن کے کیمپ پر ان کے احتجاج کے دوران بنائی گئی تھی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ کوئٹہ پریس کلب کے باہر موجود کیمپ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے حسیبہ قمبرانی نے بتایا 'میرے بھائی اٹھائیس سالہ محمد حسان قمبرانی جو محکمہ صحت بلوچستان میں نوکری کرنے کے ساتھ پرسٹن یونیورسٹی سے بی بی اے کررہے تھے، کو 16فروری 2020کو جبری طور پر گمشدہ کردیا گیا تھا۔ میرے بھائی شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا ہے۔ وہ گھر کا سودا لینے گئے پھر واپس نہیں آئے، ان کے ساتھ میرے چچازاد حزب اللہ قمبرانی بھی تھے وہ بھی لاپتہ ہوگئے۔'
گزشتہ کچھ عرصے سے بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح کوئٹہ کے سریاب روڈ اور کلی قمبرانی سے جبری طور پر لاپتہ کئے جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
کچھ جبری طور پر لاپتہ کئے جانے والوں نوجوانوں کی لاشیں بھی اسی علاقے سے ملی۔
حسیبہ قمبرانی کے مطابق ان کے علائقے کلی قمبرانی سے پچھلے چند سالوں کے دوران متعدد نوجوان لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں کچھ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں۔
'یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی نوجوان کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہو۔ میرے بڑے بھائی سلمان قمبرانی کو جون 2015میں جبری لاپتہ کردیا گیا اور بعد میں 11 اگست 2016 کو ان کی مسخ شدہ لاش ملی۔ پہلے ایک بھائی کی مسخ شدہ لاش ملی اب دوسرے بھائی کو لاپتہ کردیا گیا ہے، ہر دوسرے گھر سے ایک فرد جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے ہے۔ خدارا ایسا ظلم نہ کیا جائے میرے بھائی کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔'
حسیبہ قمبرانی کے مطابق وہ پولیو ورکر کے طور پر کام کرنے کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے والد مسجد کے پیش امام ہیں اور وہ تین بہنیں ہیں، دو بھائیوں کے لاپتہ ہونے سے ان کا خاندان بُری طرح متاثر ہوا ہے۔
'پاکستان کے قوانین موجود ہیں۔ اگر میرے بھائی نے کچھ کیا ہے تو انھیں عدالت میں پیش کرکے سزا دی جائے اس طرح لاپتہ کرنا سراسر ظلم ہے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلوچستان سے گمشدہ ہونے والے افراد کے لواحقین کئی سالوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔
بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد کرنی والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے مطابق منگل تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے احتجاجی کیمپ کو تین ہزار، نو سو چوراسی دن ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ اکثر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی احتجاج کیا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے ماما قدیر نے دعوی کیا کہ 'اب تک بلوچستان بھر سے 53 ہزار لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ اس سال 16 گمشدہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔'
'اگر سال میں تین سو لاپتہ افراد کو رہا کیا جاتا ہے تو ایک ہزار دیگر لوگوں کو اٹھاکر جبری طور پر لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ ہم دوبارہ پرانا مطالبہ دہراتے ہیں کہ اگر کسی فرد نے کوئی جرم کیا ہے یا پاکستان کے قوانین کو توڑا ہے تو قانون موجود ہے عدالتیں بھی موجود ہیں انھیں عدالتوں میں پیش کیا جائے انھیں سزا دی جائے مگر اس طرح لوگوں کو لاپتہ کرنا کس قانون کے تحت کیا جارہا ہے؟'