سندھ کے ضلع بدین سے ایک اور ہندو لڑکی کے مبینہ اغوا اور زبردستی مذہب تبدیل کرانے کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔
ضلع بدین کے گاؤں جام پتافی کے رہائشی، گووند مینگھواڑ نے پنگریو تھانے میں درخواست دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ 16 مارچ کو عمر کوٹ کے علاقے پتھورو کے رہائشی غلام حیدر تھہیم نے ان کی 14 سالہ بیٹی مالا بائی مینگھواڑ کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اسلحے کے زور پر اغوا کر لیا۔
لڑکی کے والد نے ملزمان پر جبری طور پر ان کی بیٹی کا مذہب تبدیل کروانے کا بھی الزام لگایا ہے۔
مالا بائی مینگھواڑ کی والدہ جڑی مینگھواڑ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کی بیٹی کو واپس لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی کو اغوا کرکے ان کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ہے، اور کسی بھی ہندو رکن قومی اسمبلی یا رکن صوبائی اسمبلی نے رابطہ نہیں کیا ہے۔
جبکہ سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک ویڈیو میں، مالا بائی مینگھواڑ نے غلام حیدر تھہیم کے ساتھ بیٹھ کر دعویٰ کیا ہے کہ ان کی عمر 19 سال ہے اور وہ غلام حیدر سے فون پر رابطے میں تھیں اور انھوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرکے، غلام حیدر سے شادی کی ہے۔
کچھ دن پہلے ہندوؤں کے مذہبی تہوار ہولی والے دن، گھوٹکی ضلع کے ڈہرکی شہر سے دو ہندو بہنیں، رینا کماری مینگھواڑ اور روینا کماری مینگھواڑ اپنے گھر سے غائب ہوگئی تھیں، بعد میں ان لڑکیوں کے والد شمن لال نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی بیٹیوں کو اغوا کرکے، زبردستی مذہب تبدیل کروایا گیا ہے۔
سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا اور مذہب تبدیلی کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، مگر کچھ عرصے سے ان کیسز میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
’ہر سال ایک ہزار ہندو لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں‘
انسانی حقوق کی تنظیم، ایچ آر سی پی سندھ کے نائب صدر، اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’سندھ میں ہر سال ایک ہزار ہندو لڑکیوں کو اغوا کر کے، زبردستی اسلام قبول کرانے کے ایک ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔‘
’حالیہ دنوں میں ان کیسز میں تیزی نہیں آئی بلکہ یہ کیسز تو پہلے ہی ہو رہے ہیں، مگر اب الیکٹرانک میڈیا پر رپورٹ ہونے اور سوشل میڈیا کی وجہ سے سامنے آ رہے ہیں۔‘
اسد بٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’سندھ میں حالیہ برسوں میں، مدرسوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے، مدرسوں کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ایسے کیسز میں تیزی دیکھی گئی ہے۔‘
’ابھی بھی بہت سے کیسز رپورٹ نہیں ہوتے، کیوںکہ یا تو والدین عزت کے ڈر سے ایسے کیسز رپورٹ ہی نہیں کرتے، یا وہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ انھیں پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہ کیس کہاں رپورٹ کریں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسد بٹ کہتے ہیں کہ اگر سندھ کی سیاسی پارٹیاں اپنا کردار ادا کریں تو ان واقعات میں واضح کمی آسکتی ہے۔ انھوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’کچھ عرصہ قبل سندھ کے شہر ھالا سے ایک ہندو لڑکی مونیکا اغوا ہوگئی، مگر وہاں سیاسی اثر رکھنے والے مخدوم خاندان نے اس کا سختی سے نوٹس لیا، پولیس اور لڑکے کے خاندان پر دباو ڈالا، جس کے بعد ایک دن میں مسلمان ہونے والی مونیکا واپس لاکر والدین کے حوالے کر دی گئی۔‘
پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے رکن سندھ اسمبلی نند کمار گوکلانی کہتے ہیں کہ کسی بھی اقلیت کی کم عمری میں مذہب کی تبدیلی اور شادی کے حوالے سے قانون نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
’جب اغوا کرنے والے کو سزا نہیں ملتی تو دوسروں کو بھی موقع ملتا ہے کہ وہ بھی ایسا کریں، اور سزا کے لیے قانون ہونا ضروری ہے، جسے سندھ اسمبلی نے ابھی تک پاس نہیں کیا۔‘
واضح رہے کہ نند کمار گوکلانی نے 2016 میں، کم عمری کی شادی اور مذہب تبدیلی کی روک تھام کے لیے اقلیتوں کے تحفظ کا ایک بل سندھ اسمبلی میں جمع کروایا مگر انتہا پسند تنظیموں کے احتجاج کے سبب یہ بل قانوں کی صورت اختیار نہیں کرسکا۔