بھارت کی جانب سے بدھ کو مصنوعی سیارہ شکن میزائل کے ’کامیاب‘ تجربے کے بعد کہنے کی حد تک دیگر ممالک بالخصوص پاکستان کے سیٹلائٹوں کے لیے ممکنہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ پاکستان آج تک یہ کہتا آرہا ہے کہ اس کا خلائی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ اس تجربے سے بھارت نے برصغیر کو ایک پیغام دیا ہے کہ ان کے پاس خلائی جنگ کے لیے ہتھیار آ چکے ہیں اور جنگ اب خلا تک پہنچ چکی ہے۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا خلائی پروگرام انتہائی محدود پیمانے پر ہے لیکن بھارت کے اعلان کے بعد اب اسے اس بارے میں سوچنا پڑے گا۔ پہلے سے خراب معیشت کے شکار پاکستان کے حکام ہتھیاروں کی اس نئی دوڑ کے لیے کیا کچھ رقم مختص کرنے کی پوزیشن میں ہیں بھی یا نہیں؟ ایک مشکل سوال ہے۔
پاکستانی تشویش اسلام آباد میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ پاکستان کا کہنا تھا کہ وہ خلا میں ہتھیاروں کی دوڑ کے سخت خلاف ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ خلا انسانوں کی مشترکہ میراث ہے اور ہر قوم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اقدامات سے اجتناب کریں جن سے خلا میں فوجی سرگرمیاں بڑھیں۔ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا: ’ہم سمجھتے ہیں کہ خلا سے متعلق بین الاقوامی قوانین میں ان کمزوریوں کو دور کیا جائے جن سے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی وہاں پرامن سرگرمیوں اور خلائی ٹیکنالوجی کی معاشی ترقی کے استعمال کو خطرے میں نہ ڈال سکے۔‘
پاکستان نے اپنا خلائی پروگرام 1961 میں شروع کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے ’پاکستان سپیس اینڈ اَپر ایٹموسفیر ریسرچ کمیشن‘ قائم کیا گیا جس کا نعرہ آج بھی ’پرامن‘ مقاصد کے لیے خلائی تحقیق ہے۔ یہی ادارہ چین کی مدد سے اب تک کئی سیٹلائیٹس خلا میں بھیج چکا ہے۔ سپارکو کے مطابق پاکستان 2011 اور 2040 کے درمیان پانچ جیو سیٹلائٹس اور چھ لو ارتھ آربٹ سیٹلائٹس خلا میں پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس منصوبے کی منظوری دی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری حکام کے مطابق ان سیٹلائٹس کا مقصد ارضیات، ماحولیات، مواصلات اور زراعت سے متعلق تحقیق ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ان سیٹلائیٹس کو معلومات اکٹھی کرنے جیسے فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن پاکستان نے ابھی تک خلا میں نا تو کوئی ہتھیار بھیجے ہیں اور نہ ہی خلا میں مار کرنے والا کوئی میزائل بنایا ہے۔
اسی لیے شاید پاکستان نے اپنے ردعمل میں ادبی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1605 میں لکھے گئے ایک ناول ’ڈان کوسوٹ‘ میں ایک شخص خیالی دشمنوں کے خلاف لڑتا رہتا ہے۔ بیان میں بھارت کا ذکر نہیں لیکن نشانہ وہی تھا، تاہم یہ صورتحال کب تک ایسی رہ سکتی ہے کچھ کہنا مشکل نہیں۔
پاکستانی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے ماضی میں ایسی صلاحیت کے اظہار کی مذمت کی تھی، وہ اب خلا میں فوجی خطرات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی قواعد تیار کرنے کے لیے تیار ہوں گے۔
خلا میں جنگی تیاری زمینی افواج کے لیے اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اورماہرین کے مطابق عسکری توازن کو خراب کرسکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کو زیادہ پیچھے رہنا شاید قبول نہ ہو۔ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کا ماننا ہے کہ بھارت کی خلا میں جنگ کی تیاری کا ہدف پاکستان سے زیادہ چین ہے لیکن وہ ایک ’دشمن ہمسائے‘ کی اس صلاحیت کو یقیناً نظر انداز نہیں کرسکتا۔