فاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کا اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی عزیر بلوچ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ نامکمل ہے۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ چیف جسٹس اس معاملے کا از خود نوٹس لیں۔
وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا تھا کہ جو رپورٹ سندھ حکومت نے شائع کی اس میں سیاسی تعلقات کا ذکر موجود نہیں جب کہ اصل رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی رہنماؤں کے کہنے پر عزیر بلوچ نے قتل کیے۔
انہوں نےچیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی کہ ملک کے سب سے بڑے شہرمیں جوقتل وغارت ہوئی اس پر 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس لیں۔
علی زیدی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اس معاملے پر انہیں ساتھ ہونے کا یقین دلایا ہے۔
آخر عزیر بلوچ کی کتنی جے آئی رپورٹوں ہیں اور ان میں کیا فرق ہے؟
30 جنوری 2016 کو سندھ رینجرز نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو کراچی کے باہر سے گرفتار کیا تھا۔
اس گرفتاری کا باقاعدہ اعلان ایک سال بعد پاکستان آرمی کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا گیا تھا کہ غیر ملکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو حساس حفاظتی معلومات کی رسائی پر پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ – 1923 کے تحت عزیر بلوچ کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
اس کے تین سال بعد عزیر بلوچ کو آرمی کورپس فائیو کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں 62 کیسز میں نامزد لیاری کے مبینہ گینگسٹر کا ٹرائل چلا۔
دریں اثنا کالعدم تنظیم کے سربراہ عزیر بلوچ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی حیران کن انکشافات کیے تھے جس میں ان کے سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کے ساتھ گہرے تعلقات کا بھی ذکر تھا۔ تاہم حکومت سندھ نے مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس کی رپورٹ 23 فروری 2019 کو سندھ حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی تھی۔
تاہم تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر علی زیدی نے سندھ ہائی کورٹ میں عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی درخواست دی تھی جس کا فیصلہ سناتے ہوئے رواں سال جنوری میں سندھ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ کو نہ صرف عزیر بلوچ بلکہ سانحہ بلدیہ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما ڈاکٹر نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹس کو بھی منظر عام پر لانے کا حکم دیا تھا۔
حکومت سندھ نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا اور تقریباً پانچ ماہ تک ان تینوں جے آئی ٹی رپورٹس کو منظر عام نہیں لایا گیا تھا۔
اس معاملے کی سخت مخالفت کے باوجود پیپلزپارٹی نے تینوں جے آئی ٹی رپورٹس کو جاری تو کردیا لیکن اب عزیر بلوچ کی رپورٹ پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔
2016 میں پیپلزپارٹی کے رہنما قادر پٹیل کے سندھ رینجرز کو دیے گئے اعترافی بیان، 2018 میں سامنے آنے والے عزیر بلوچ کے اعترافی بیان اور مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی زیدی کے پاس موجود عزیر بلوچ کی جے آئی رپورٹ کی ایک ابتدائی کاپی اس جانب اشارہ کرتیں ہیں کہ عزیر بلوچ کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سرپرستی حاصل تھی۔
لیکن دوسری جانب سومرار کے روز سندھ حکومت کی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں سندھ کی حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کا اس رپورٹ میں ایک بار بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ کو تبدیل کرکے پیش کیا گیا ہے؟
رپورٹ جاری کرنے کی انتہائی مخالفت کے باوجود پیپلزپارٹی حکومت نے اچانک ان رپورٹس کو جاری کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
اور کون سی جے آئی ٹی رپورٹ اصل ہے، علی زیدی کی یا سندھ حکومت کی؟
دونوں جے آئی رپورٹس میں کیا فرق ہے؟انڈپینڈنٹ اردو کو حاصل ہونے والی عزیر بلوچ کی مبینہ جے آئی ٹی رپورٹ جس کا وفاقی وزیر علی زیدی نے ایوان میں ذکر کیا تھا کل 20 صفات پر مشتمل ہے جبکہ سندھ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ 35 صفحات پر مبنی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ 2016 سے عزیر بلوچ کی ایک اور جے آٰئی رپورٹ کی کاپی بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جو کہ 38 صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ کاپی آج بھی ٹوئٹر کے ایک اکاؤنٹ 'دی لاسٹ بلاگ' پر دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک محتاط مطالعے کے بعد سندھ حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹ اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی رپورٹ میں تین صفحات کا فرق ہے۔
تاہم انڈپینڈنٹ اردو نے جب علی زیدی کی جانب سے منظر عام پر لائی جانے والی اور سندھ حکومت کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی جے آئی ٹی رپورٹس کا موازنہ کیا تو دونوں میں کافی حیران اختلافات سامنے آئے۔ دونوں رپورٹس کا فرق دوسرے صفے پر ہی واضح ہوجاتا ہے۔
جیسے 20 صفحات والی رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ:
'اس رپورٹ کے دو حصے ہیں، پہلا حصہ ملزم اور اس کے ساتھیوں کے ذریعے کی جانے والی سخت مجرمانہ سرگرمیوں سے متعلق ہے جب کہ جے آئی ٹی کا دوسرا حصہ سیاسی شخصیات کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے ہے۔'
البتہ سندھ حکومت کی جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ نمبر دو پر ایسی کسی بات کا ذکر نہیں ہے۔
۔ دونوں رپورٹس کے چھٹے صفحے پر 11ویں پوائنٹ پر شائع ہونے والی معلومات میں واضح فرق ہے۔
سندھ حکومت کی رپورٹ میں عذیر بلوچ کی سال 2001 سے 2013 کی تمام تر سرگرمیوں کی ایک مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے جب کہ علی زیدی کی طرف سے شائع کی جانے والی رپورٹ کے گیارہویں پوائنٹ پر عزیر بلوچ کی سیاسی وابستگیوں تفصیلات موجود ہیں۔
ان تفصیلات میں میں پیپلزپارٹی پر الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ: ' ملزم کا خاندان پی پی پی سے وابستہ تھا اور بچپن سے ہی ملزم اس جماعت کا حصہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل، سینیٹر یوسف بلوچ، نسار مورائی، اویس مظفر ٹپی اور ذوالفقار مرزا نے عزیر بلوچ کی حمایت کی تھی۔ عام انتخابات 2013 سے پہلے، عزیر بلوچ نے پی پی پی کو اپنی پسند کے امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور کیا تھا، جس پر پارٹی نے اتفاق کیا تھا۔'
۔ دونوں رپورٹس کے 14ویں پوائنٹ کے عنوانات مختلف ہیں جب کہ نکات ایک جیسے ہیں۔ اس پوائنٹ میں عزیر بلوچ کی جانب سے کی جانے والے نسل پرستانہ قتل کی فہرست شائع کی گئی ہے تاہم سندھ حکومت کی رپورٹ میں اس کا عنوان 'نسل پرستانہ ہلاکتوں کی تفصیلات' ہے جبکہ علی زیدی کی رپورٹ میں اس کا عنوان ' پی پی پی کی سیاسی قیادت کی ہدایت پر نسل پرستانہ ہلاکتوں کی تفصیلات' ہے۔
۔ رپورٹ کے پندرہویں پوائنٹ میں عزیر بلوچ کی جانب سے کیے جانے والے دیگر قتل کی تفصیلات موجود ہیں جن میں بھی واضح فرق ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ حکومت کی رپورٹ میں 17 قتل کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں جبکہ علی زیدی کی رپورٹ میں صرف دو قتل جن کی مختصر تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ جن میں رزاق کمانڈو کے جلیل اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں ہونے والی 11 نسل پرستانہ قتل وارداتوں کا ذکر ہے۔ ان میں خاص طور پر پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل اور ذوالفقار مرزا کا ذکر موجود ہے، اس کے علاہ کسی اور قتل کا ذکر نہیں کیا گیا۔
۔علی زیدی کی جانب سے منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں 17ویں پوانٹ پر مجرمانہ سرگرمیوں میں سیاسی شخصیات کی معاونت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں خاص طور سے ایک ہیڈنگ ایسی ہے جس میں پیپلزپارٹی کے شریک چئیرمین اور ان کی بہن یعنی 'آصف علی ذرداری اور فریال تالپور' کی جانب سے کی گئی سیاسی معاونت کا ذکر ہے۔
یہ حصہ سندھ حکومت کی جے آئی ٹی رپورٹ میں موجود نہیں اور اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ' 2012 میں سندھ حکومت نے ملزم کے سر پہ رقم کا اعلان کیا تھا جس کے لیے ملزم نے سینیٹر یوسف بلوچ کی ہدایت پر وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اور فریال تالپور سے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد آصف علی ذرداری اور فریال تالپور کی ہدایت پر سندھ حکومت کی جانب سے عزیر بلوچ پر تمام مقدمات ختم کردیے گئے تھے اور سر پر رقم ہٹا دی گی تھے۔'
ایک جگہ یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ 'فریال تالپور نے ملزم کو ہدایت کی تھی کہ لیاری کو پی پی پی کا گڑھ بنے رہنا چاہیے اور اگر مخالفین دھمکیاں دیں تو انہیں بندوق کی نوک پر رکھا جائے۔'
۔ اسی پوائنٹ میں ایک جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ' یوسف بلوچ کو(آصف علی) زرداری نے ذمہ داری سونپی تھی کہ ملزم کسی اور پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہیے بلکہ پی پی پی کے ساتھ اس کی وابستگی جاری رہنی چاہیے۔ یوسف بلوچ زرداری کے قریبی دوست تھے اور وہ ملزم اور ان کے مابین رابطہ کار کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
۔ ایک اور واضح فرق یہ بھی ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں جے آئی ٹی کی تحقیقات کے حتمی نتائج کو کافی تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے جو کہ علی زیدی کی جانب سے شائع کی جانے والی جے آئی رپورٹ میں موجود نہیں ہے۔ کسی بھی جے آئی ٹی رپورٹ کے اختتام میں اس کمیٹی کی تحقیقات کے نتائج اور شواہدات کا شائع ہونا ایک معلوم بات ہے، تاہم اس کی غیر موجودگی سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ علی زیدی کی رپورٹ نامکمل ہے۔
۔ دونوں رپورٹس کے اختتام میں جے آئی ٹی ممبران کے دستخطوں میں بھی کافی تضاد ہے۔ سندھ حکومت کی رپورٹ میں جے آئی ٹی کے تمام چھ ممبران جن میں سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی، آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور سندھ رینجرز کے ساتھ ساتھ ایس ایس پی ساؤتھ زون فدا حسین جانواری کے بھی دستخط ہیں۔
جب کہ دوسری رپورٹ میں صرف چار اراکین کے دستخط موجود ہیں جن میں آئی بی، آئی ایس آئی، ایم آئی اور سندھ رینجرز شامل ہیں۔
غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ علی زیدی کی رپورٹ میں سپیشل برانچ، سی ٹی ڈی (جو کہ اس رپورٹ میں سی آئی ڈی لکھا ہوا ہے) اور ایس ایس پی ساؤتھ کے دستخط نہیں ہیں۔
ان دونوں جے آئی ٹی رپورٹس کے سامنے آنے کے بعد ابھی بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ اس میں سے اصل کون سی ہے؟