پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں پولیس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک حملے میں چار اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئے۔
دوسری طرف شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی میر کلام کی گاڑی پر نامعلوم افراد کے حملے میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے، ان کی گاڑی پر کئی گولیاں لگیں۔
جنوبی وزیرستان میں ضلعی پولیس افسر شوکت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وانا سے کوئی 60 کلومیٹر شمال میں تحصیل لدھا کے علاقے کاژاکئی میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کو مسلح شدت پسندوں نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ ایک پہاڑی سلسلے سے گزر رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قافلہ لدھا سے وانا کی طرف جارہا تھا جس میں ایک درجن سے زیادہ گاڑیاں شامل تھیں۔
لاشیں اور زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے وانا منتقل کر دیا گیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ کاژاکئی میں سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن شروع کیا ہے اور وانا سے مزید نفری بھی علاقے میں روانہ کر دی ہے۔
ضلعی پولیس افسر کے مطابق کڑمہ کے علاقے میں شدت پسندوں نے ایک زیر تعمیر پلازے کو بارودی مواد سے اُڑا دیا۔ افسر کے مطابق پلازے کے نیچے تین جگہوں پر بارودی مواد کو نصب کیا گیا جو بعد میں ایک زودار دھماکے سے پھٹ گیا اور پلازہ مکمل طور زمین بوس ہو گیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک بیان میں جنوبی وزیرستان کی تحصیل لدھا کے علاقہ گڑیوم میں پیدل جاتے ہوئے فوجیوں پر حملے کا دعویٰ کیا ہے۔ لدھا کے پولیس سربراہ شوکت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تحصیل کے علاقے ماسپ میلہ میں سکیورٹی فورسز کی پٹرولنگ پارٹی پر ایک پہاڑی نالے سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں دو سپاہی زخمی ہوگئے، جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور ہلاک جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں پی ٹی ایم کے رہنما اور ممبر صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر پر نامعلوم افراد نے میرعلی کے قریب اس وقت حملہ کیا جب وہ میران شاہ سے پشاور جا رہے تھے۔ ضلعی پولیس افسر شفیع اللہ کے مطابق میران شاہ میں ایک عوامی جرگے میں شرکت کے بعد وہ واپس پشاور جا رہے تھے کہ میرعلی کے قریب پاتسی اڈہ میں حملہ کیا گیا۔ پولیس نے میرکلام کو بحفاظت بنوں پہنچا دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرکلام نے کہا کہ ان کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے قوم کے لیے حق کا آواز اٹھا رہے ہیں۔ 'پشتون بیلٹ میں جو بھی حق کی آواز اٹھا رہا ہے ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں اپنے علاقے کی امن وامان کے لیے ہمشہ آواز بلند کرتا رہوں گا۔'
شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں ضرب عضب سے متاثرہ خاندانوں کی واپسی کے لیے ایک پرامن احتجاج ہو رہا تھا جس میں ایم پی اے میر کلام کے علاوہ سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔
اس موقعے پر قبائلی رہنما عبدالخلیل نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے 20 ہزار خاندان اب بھی شمالی وزیرستان سے باہر زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سات ہزار خاندان افغانستان میں ہیں اور 13 ہزار پاکستان کے دوسرے حصوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے سکیورٹی فورسز کے حوالے سے بتایا کہ تحصیل شوال اور تحصیل دتہ خیل ابھی تک کلیئر نہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں کو واپس جانے کی اجازت نہیں۔ عبدالخلیل نے مطالبہ کیا کہ شوال اور دتہ خیل کو کلیئرکر کے متاثرین کو واپسی کی اجازت دی جائے۔ 'متاثرین بہت مشکل میں ہیں اور کئی سالوں سے ان کے چلغوزے کی فصل تباہ ہو رہی ہے۔'
متاثرین کمیٹی کے چیئرمین رحمت اللہ نے کہا کہ متاثرین کے مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات پر عمل نہیں کیا تو وہ بہت جلد ملک گیر ہڑتال کی کال دیں گے۔
تحصیل شوال اور تحصیل دتہ خیل کے رہائشیوں کو چلغوزے کی فصل کاٹنے کی اجازت مل گئی تھی مگر اس میں ڈپٹی کمشنر کے اجازت نامہ کو لازمی قرار دیا تھا۔ اب تحصیل شوال اور دتہ خیل قبائل میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو ضرب عضب سے متاثر ہو کر افغانستان چلے گئے تھے۔
مظاہرے میں بھی یہی مطالبہ کیا گیا کہ علاقے کے لوگوں کو چلغوزے اکٹھے کی اجازت مل گئی ہے لیکن وہ پاکستان میں موجود نہیں اور سرحد کے اس پار افغانستان میں پھنسے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پاکستانی حکام واپس آنے کی اجازت دیں۔