جب سے میں نے ایک نئے نظام کی بات شروع کی ہے میرے کئی سیاستدان دوست جو نہ صرف سیاست بلکہ حکومت کا بھی طویل تجربہ رکھتے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں کہ میں جلد بازی کر رہا ہوں اور مجھے موجودہ نظام کو کچھ اور وقت دینا چاہیے۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ 1973 کے آئین کو کبھی صحیح طرح لاگو ہی نہیں کیا گیا۔ اگر اسے اس کی روح کے مطابق موقع دیا جائے تو وہ عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ بعض دوسرے دوستوں کا خیال ہے کہ مسئلہ نظام کا نہیں بلکہ معاشرے کی ساخت کا ہے اور نظام کوئی بھی ہو وہ کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک معاشرے کو نہ بدلا جائے۔ میں اس تحریر کے ذریعہ ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
جہاں تک وقت دینے کی بات ہے تو موجودہ حکومت کو جو عوام سے بہت سے وعدے کر کے آئی ہے اور جسے ’تیسرے امپائر ‘کی بھی مکمل حمایت حاصل ہے، یقیناً کچھ وقت دینا چاہیے۔ ابھی آٹھ مہینے گزرے ہیں مگر انہیں کچھ اور وقت ضرور دیتے ہیں اگر یہ واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے تو بہت اچھا ہے مگر اگر یہ ناکام رہے تو پھر ہمیں ایک نئے نظام کی تعمیر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
مجھے ان کی کامیابی کی امید دو وجوہات سے نہیں ہے۔ ایک تو یہ کہ موجودہ آئین کی نظریاتی اساس قوم کو منقسم کرنے پر ہے نہ کہ متحد کرنے پر۔ اس کے علاوہ آئین میں کچھ اور کمزوریاں ہیں جس پر تفصیلی بات کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ موجودہ حکومت عوامی مینڈیٹ سے نہیں بلکہ مبینہ انجینیئرنگ کے نتیجے میں وجود میں آئی اور اسی وجہ سے یہ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں ہے، نہ ہی انہیں عوامی مسائل کا ادراک ہے۔
جہاں تک موجودہ آئین کو لاگو کرنے کی بات ہے اس میں وزن نہیں ہے۔ وہ کیا صورت حال ہو گی جس میں آئین لاگو ہو سکے گا؟ ہم چار انتخابات کروا چکے ہیں جس سے موجودہ آئین کے تحت حکومتیں قائم ہوئی ہیں۔ کیا وہ عوامی مسائل حل کر پائیں؟ کیا آئین میں کی گئی ترامیم کو اگر رد کر دیا جائے تو وہ عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ پاکستان کی پہلی سیاسی حکومت آئین کی اصل ساخت میں چار سال تک حکومت کرتی رہی 1973 سے 1977 تک لیکن وہ بھی عوام کی امنگوں پر پوری نہ اتری۔ ہم مزید کتنی مرتبہ الیکشن کرائیں گے اس امید پر کہ موجودہ نظام اور آئین عوام کے لیے بہتری پیدا کرے گا۔
میں اس بات پر قائل ہوں کہ موجودہ آئین کی نظریاتی اساس غلامانہ ہے اور اس کے قائم کردہ جمہوری ادارے صرف اشرافیہ اور ان کے حامیوں کے مفاد میں کام کرتے ہیں۔ ہم اگلے پچاس سال بھی اگر اس نظام کے تحت چلے تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے تو میں نے ہمیشہ یہ بات کی ہے کہ مجموعی طور پر عوام صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں کافی بڑی تعداد ایمان دار اور باصلاحیت لوگوں کی موجود ہے جو ملک کی باگ ڈور بہت اچھی طرح چلا سکتے ہیں مگر وہ بھی اگر موجودہ نظام میں حکومت سنبھالیں تو ناکام رہیں گے۔
کسی نظام کی کامیابی کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں: ایک یہ کہ جو عمرانی معاہدہ ہے وہ عوام کو طاقت کا منبع سمجھتا ہو اور ہر اہم فیصلے میں ان کی رائے کو اہمیت دیتا ہو۔ میں اس بات پر قائل ہوں کہ موجودہ آئین عوام کو اس سیاسی فیصلہ سازی سے محروم رکھتا ہے اور ان میں اتنی تقسیم پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل نہ کروا سکیں۔
دوسری اہم ضرورت یہ ہے کے جمہوری ادارے چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں، اہم حکومتی منصب ہوں، یا منتخب ایوان ہوں وہ ایک عوامی جمہوری عمل سے وجود میں آئیں۔ موجودہ نظام عوام کی نمائندگی نہیں کرتا اور اتنا کمزور ہے کہ بہت آسانی سے استحصالی طبقات کے زیر اثر آ چکا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی جمہوری ہے اور ہر شہری کو سیاست میں برابری کی بنیاد پر حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے؟ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کے پچھلی چار منتخب حکومتیں عوامی تھیں اور انہوں نے جو فیصلے کیے اس سے عوام کی فلاح ہوئی؟
نواز شریف نے نعرہ لگایا ’ووٹ کو عزت دو،‘ قوم نے لبیک کہا اور بڑی تعداد میں انہیں ووٹ دیے اور اگر انجینیئرنگ نہ ہوتی تو شاید کچھ سیٹیں زیادہ ہوتیں۔ مگر کیا آج کی مسلم لیگ ن عوام کے مسائل کے حل کے لیے کچھ کر رہی ہے؟ کیا اتنی مضبوط حزب اختلاف عوامی مسائل کے حل کے لیے پورا زور لگا رہی ہے؟
پی پی پی کہتی ہے وہ پاکستانی جمہوریت کی ماں ہے۔ مگر سندھ میں 12 سال حکومت کے بعد کوئی کہہ سکتا ہے سندھ کے عوام کی حالت بدلی ہے؟
پی ٹی آئی کہتی ہے وہ تبدیلی کی جماعت ہے اور کرپشن کے خلاف ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے دو بڑے اخباروں نے رپورٹ شائع کی کہ بی آرٹی منصوبے میں بےانتہا کرپشن ہوئی اور عوام کو اب تک اس سے کچھ نہیں ملا۔
میں یہ بھی دعویٰ کرتا ہوں کہ عمران خان حکومت کی اور بہت سی کرپشن کی داستانیں سامنے آئیں گی۔ فوج کہتی ہے کہ سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور ان سے بڑا محب وطن کوئی اور نہیں مگر کل ہی ان کے 103 سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند ہوئے ہیں جن کے بارے میں فیس بک نے کہا کہ وہ ’نامعتبر‘ طریقے سے کام کر رہے تھے۔ کیا اس سے ملک کو کوئی فائدہ ہو گا؟ فوج اپنے کام سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے۔
جج صاحبان کے کچھ سیاسی نوعیت کے مقدموں کے فیصلوں پر وکیل خود حیران ہیں کہ ان کی قانونی بنیاد کیا ہے۔ غرض یہ کہ پورا نظام ناکارہ اور غیر فعال ہے۔ یہ نظام ایک مخصوص طبقے کے مفاد میں تو ضرور کام کرتا ہے مگر عوام کے مفادات کے لیے اس میں کچھ نہیں ہے۔
ایک نیا نظام جس کی نظریاتی اساس عوام کو طاقت اور فیصلوں کا سر چشمہ مانے، اب اس ملک کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جسے لوگوں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ یہ سمجھتے ہوں کے ہر شخص برابری کی بنیاد پر سیاست میں حصہ لے سکتا ہے۔
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔