پاکستان میں یورپی ملک سویڈن کے سفارت خانے کے عملے کا کہنا ہے کہ دو سال سے کارروائیاں معطل رہنے کے بعد بدھ سے سفارت خانہ جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس میں واقع سویڈن کے سفارت خانے کی پبلک ریلیشنز (تعلقات عامہ) افسر فاطمہ ایریکسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ’مائیگریشن ایجنسی نے کچھ ویزا سروسز دوبارہ شروع کر دی ہیں۔‘
سویڈش مائیگریشن ایجنسی کے مطابق جن پاکستانی افراد نے تعلیم اور نوکری کے حصول یا خاندان کے ساتھ ملنے کے لیے اجازت ناموں کے لیے درخواست دے رکھی ہے، وہ آج سے سفارت خانے کا دوبارہ دورہ کر سکیں گے۔
مائیگریشن ایجنسی کے مطابق سویڈن کے سفارت خانے میں یہ افراد اپنا بائیو میٹرک ڈیٹا فراہم کرنے، اپنا پاسپورٹ چیک کروانے یا انٹرویو دینے آ سکیں گے۔
یہ خدمات ان افراد پر بھی لاگو ہوں گی جو 90 روز سے زیادہ عرصے کے لیے سویڈن میں رہنا چاہتے ہیں۔
لیکن مختصر قیام یعنی 90 روز تک کے لیے شینگن ویزوں کی پروسیسنگ میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سویڈن جانے کے لیے درخواست دہندگان اس سے قبل ویزا سے متعلق انٹرویوز یا پروسسنگ کے لیے خصوصی طور پر ایتھوپیا جاتے تھے۔
26 سالہ حسن علی سویڈن جانے کے خواہش مند ہیں جو وہاں مقیم ہونے کے لیے درخواست دے چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ پاکستان میں سویڈن کا سفارت خانہ بند کر دیا گیا ہے اور انہیں اب فنگر پرنٹس اور انٹرویو دینے کے لیے ایتھوپیا جانا ہوگا، تو وہ خاصے مایوس ہوئے کیونکہ یہ ان کے اخراجات میں اضافی بوجھ بھی تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’ملک میں سفارت خانے کے جزوی طور پر بحال ہونے سے میری طرح کئی افراد کی مشکلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘
اپریل 2023 میں پاکستان میں سویڈن کے سفارت خانے نے اپنی اور سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ایک اعلامیہ کے ذریعے ’سکیورٹی خدشات کی وجہ سے اپنی سرگرمیاں غیر معینہ مدت کے لیے معطل‘ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم اس بیان میں سکیورٹی خدشات کی نوعیت اور مزید تفصیلات نہیں بتائیں تھیں۔
اس سے دو ماہ قبل جنوری 2023 میں دائیں بازو کے ایک شدت پسند رہنما نے سٹاک ہوم میں پولیس کے تحفظ میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کے نسخے کو آگ لگائی تھی، جس کی دنیا بھر کے مسلم ممالک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی۔
جہاں ایک جانب پاکستان کے سیاسی طبقوں جن میں وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مذمت کی تھی وہیں دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اس عمل کے خلاف احتجاج کیے تھے۔