ہمیں وزیر اعظم عمران خان کا پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی والا بیان اب سمجھ میں آیا ہے۔ محترم وزیر اعظم اس بیان کے ذریعے ذرائع ابلاغ کی آزادی کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کے ذہن میں حوالہ شاید اس بےلگام گفتگو کا تھا جو ان کے تحت چلنے والے نظام میں ان کے پیارے اور چہیتے کسی بھی موضوع پر کر سکتے ہیں۔
یہ حقیقت سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی اس گفتگو سے واضح ہوئی جو اس افسر نے موٹر وے پر ریپ ہونے والی خاتون کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کی۔ حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بولے کہ ان کو جی ٹی روڈ سے جانا چاہیے تھا، گاڑی کا تیل پانی بھی پورا کر کے چلنا ان کی ذمہ داری تھی۔
بیان میں اپنے اندر کی جذباتی کیفیت کو چھپائے بغیر نیم سوالیہ نشان کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو شام کے وقت اس طرح باہر جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد ایک نام نہاد وضاحتی بیان میں یہ بھی اضافہ کر دیا کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون چونکہ فرانس سے آئی تھیں لہذا ان کے ذہن میں اس معاشرے کا معیار اور ماحول تھا جو پاکستان کے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اس طرح کے تجزیے ایک ایسے پولیس افسر کی طرف سے، جو تفتیش پر بھی مامور ہو، جرم کا شکار ہونے والے خاندان پر بجلی کی طرح گرے ہوں گے۔ اس بات پر اصرار کہ یہ خاتون اپنے ساتھ ہونے والے اس بدترین واقعے کی بالواسطہ طور پر خود ذمہ دار ہیں، جرم میں شراکت داری کے الزام کے مترادف ہے۔
جرم کا شکار ہونے والوں کو ذہنی اذیت دینا، تفتیش سے پہلے مفروضوں کی بنیاد پر الٹے سیدھے نتائج اخذ کرنا جرم کی نوعیت اور سنجیدگی کو متاثر کرنے کی ایک مذموم کوشش کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح کی باتوں پر کسی بھی معاشرے میں افسر کو تفتیش اور عہدے سے ہٹا کر باضابطہ کارروائی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
لیکن چونکہ یہ سی سی پی او خاص آدمی ہیں اور ان کو لانے کے لیے ایک آئی جی کی باقاعدہ قربانی دی گئی ہے لہٰذا ان کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ کچھ بھی بول سکتے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو فارغ کیے گئے آئی جی شعیب دستگیر سے پوچھ لیں یا سلیکشن بورڈ کی اس رپورٹ کو پڑھ لیں جو ان کے تمام کیریئر کا احاطہ کرتی ہے۔
اسی آزادی کا فائدہ شہزاد اکبر نے بھی اٹھایا اور سی سی پی او کے دفاع میں لمبی چوڑی وضاحتیں دیں۔ قوم کو یہ بتایا کہ عمر شیخ کے بیان کا غلط مطلب اخذ کیا گیا ہے۔ ستم طریفی یہ ہے کہ عمر شیخ خود اپنے بیان پر مکمل استقامت کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں اور شہزاد اکبر کی وضاحتوں کے برعکس بار بار ایک ہی بات کر رہے ہیں۔
اسد عمر کو بھی اظہار آزادی رائے سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ دانش مندی کے نئے دروازے کھولتے ہوئے ایک ٹی وی پروگرام میں عمر شیخ کے بیان کو بار بار’غیر ضروری‘ قرار دیتے رہے اور ساتھ یہ بھی سوال اٹھایا کہ ان کے اس بیان میں کوئی پہلو غیرقانونی نہیں ہے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بےجا ہے۔
اسی موضوع پر چیف منسٹر پنجاب عثمان بزدار کو ایک ڈھیلے ڈھالے اور انتہائی دوستانہ انٹرویو میں سی سی پی او عمر شیخ کے بیانات کی مذمت کرنے کے اتنے ہی مواقع دیے گئے جتنے نقلی ریسلنگ کے مقابلوں میں ایک ریفری اپنے پسندیدہ پہلوان کو بار بار جتوانے کے لیے دیتا ہے۔ مگر ہر مرتبہ عثمان بزدار وہی کہہ سکے جو ان کو رٹوایا گیا تھا یعنی وہ مجرموں تک پہنچ جائیں گے اور کمیٹی ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔
ان کے اظہار رائے پر پابندی صرف ان کی اپنی مجبوریاں ہیں جن کے تحت وہ اس پولیس افسر کو کسی طور غلط ثابت نہیں کر سکتے۔ ان کو پتہ ہے کہ اگر اس کو بچانے کے لیے ایک آئی جی گرایا جا سکتا ہے تو چیف منسٹر کے آفس کے اندر بھی ہنگامہ مچ سکتا ہے، لہذا کوئی خطرہ مول لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ سر چھپا کر بیٹھے رہو، دامن پر کسی اصول کا دھبہ لگانے کی ضرورت نہیں۔ خواہ مخواہ داغ نمایاں نظر آئے گا۔ کیا فائدہ۔
سوشل میڈیا پر ایک چیتے نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس ظلم کا نشانہ بننے والی خاتون ایک بلیک میلر بھی ہو سکتی ہیں اور یہ واقعہ ن لیگ کا سی سی پی او اور حکومت کے خلاف ایک سازش کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس موصوف کے 42 ہزار کے لگ بھگ فالورز ہیں اور یہ اپنے آپ کو ایک قابل فخر جماعت کے کارکن کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی سی پی او عمر شیخ کی قوم کی ماؤں بہنوں کو جاری کردہ ہدایت کہ وہ آئندہ احتیاط کریں، بھی حق اظہار رائے کی ایک قسم ہے۔ اس طرح کی ہدایات ان جیسے افسران سے اٹی ہوئی ریاست اپنے مجبور شہریوں کی مدد کے لیے وقفے وقفے سے جاری کرتی رہتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب قصور میں زینب کے قتل اور زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تو اس ریاست کے طاقتور ترین، محفوظ قلعوں میں اپنے بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے والے قائدین نے قوم کو کیا مشورہ دیا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ ماں باپ کو اپنی بچیوں کی خود حفاظت کرنی چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔
بےنظیر بھٹو جب دہشت گردی کے ہاتھوں دن دہاڑے لیاقت باغ کے باہر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں تو وزیر اعظم عمران خان نے اس وقت ایک انگریزی اخبار میں آرٹیکل کے ذریعے ہمیں یہ بتایا تھا کہ بےنظیر بھٹو کو گاڑی سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا اور اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو شاید ان کی جان بچ جاتی۔ جنرل مشرف، ان کے تمام وزرا اور مشیر (جن سے اس وقت 70 فیصد حکومت بنی ہوئی ہے) طویل عرصے تک بےنظیر بھٹو کی مبینہ بےاحتیاطی کو بیان کرکے اس سانحے کی وضاحت کرتے رہے۔
اخبارات میں آئے روز چھپنے والے بچوں کے اغوا اور زیادتی کے واقعات سے متعلق اکثر پولیس کی طرف سے جاری کردہ بیان بھی ایسا ہی ہوتا ہے جس میں والدین کو اولاد سے نظر ہٹانے پر سرزنش کی جاتی ہے۔
اپنی طرف سے یہ تمام لوگ ایسے بیانات دے کر اپنے فرائض کی انجام دہی کے ریکارڈ کو بہترین انداز سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، مگر اصل میں وہ گھناؤنے جرائم کے وکیل کے طور پر ایک گمراہ کن پروپیگنڈا کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔ اگر احتیاط والی توجیہہ کو مان لیا جائے تو پھر ریاست اور حکومت کے کرنے کا کوئی کام نہیں رہ جاتا۔
اے پی ایس پشاور کے بچوں کو بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس دن ان کو سکول سے چھٹی کی درخواست کرنی چاہیے تھی۔ اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو ان کو وہ دن اپنی تمام تر بدنصیبیوں کے ساتھ نہ دیکھنا پڑتا۔ اسی سوچ کے تحت آپ مجید اچکزئی کی گاڑی کے نیچے آنے والے ٹریفک پولیس والے کے خاندان کو بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کے آگے سے ہٹ کیوں نہیں گیا۔ قصور گاڑی چلانے والے کا نہیں کانسٹیبل کا تھا جس نے احتیاط سے کام نہیں لیا۔ ساہیوال کے واقعے میں تلف ہونے والی جانوں کو گاڑی میں بیٹھنے کا الزام دیا جا سکتا ہے۔ نقیب اللہ مسحود کو بھی موت کا خود ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ بلدیہ فیکٹری میں جل جانے والے اگر وہاں کام نہ کر رہے ہوتے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی جانیں بچ جاتیں۔
اس ملک میں اظہار رائے کی آزادی مکمل ہے۔ وزیر اعظم صحیح کہتے ہیں۔ یہاں پر رائے دینے کے لیے اپنے حواسوں میں ہونا ضروری نہیں۔ ہر مخبوط الحواس خود کو منبع عقل سمجھ کر کچھ بھی بول سکتا ہے۔