نواز شریف جمہور اور آئین کی بالادستی کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا اپنے خاندانی اقتدار کی؟
نواز شریف صاحب کا ’بیانیہ‘ تو بہت حسین ہے لیکن ان کے اعتبار کے سارے موسم گزر چکے ہیں۔ وہ رجز پڑھنے پر آئیں تو پرندے بھی جھوم اٹھیں لیکن جنگجووہ ایسے کہ عین محاذ پر ’کریانہ سٹور‘ کھول بیٹھیں اور داد طلب ہوں تو کسی کو حیرت نہ ہو۔
ان کے مداحین کا کہنا ہے تاریخ کے اس موڑ پر عزیمت کا پرچم اور حریت فکر کا بیانیہ میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے اس لیے اس پرچم اور اس بیانیے کو دیکھا جائے اور ان کے ماضی سے صرف نظر کیا جائے۔ ان کے خیال میں سیاست کے دشت میں اللہ کا ولی کوئی بھی نہیں، ہر ایک کا دامن تضادات اور مصلحتوں سے آلودہ ہے اس لیے ماضی کے دفتر کھول کر بیٹھ جانا صحت مندانہ رویہ نہیں۔ ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ لمحہ موجود میں کون تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہے اورکون ہے جس کا بیانیہ حق و صداقت اور عزیمت کا آئینہ دار ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ فیصلہ ماضی پر نہیں، حال پر کیا جائے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ میاں صاحب کا ماضی بھی قوس قزح ہے اور حال بھی۔
میاں صاحب کی سیاست کے، بادی النظر میں، دو ادوار ہیں۔ پہلا دور 12 اکتوبر 1999 کو ختم ہوا۔ دوسرا جلاوطنی کے خاتمے کے بعد شروع ہوا۔ ہمیں بتایا گیا جلاوطنی کے ماہ و سال نے میاں صاحب کو بدل دیا ہے اور اب وہ ایک مدبر اور صاحب عزیمت رہنما بن کر لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ہوا کیا؟
میاں صاحب کے پہلے دور سے یہ سوچ کر صرف نظر کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت ان میں اتنی پختگی نہیں تھی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ کے تسمے سے بندھے تھے، لیکن ان کے دوسرے دور سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ دور تو ان کی شعوری پختگی کا دور ہے جب جلاوطنی کی تنہائی نے ان کے مزاج کی تہذیب کر دی تھی اور وہ جمہوریت اور آئین کا پرچم تھام چکے تھے۔ سوال یہ ہے ان کا دوسرا دور ان کے پہلے دور سے مختلف ہی کتنا تھا؟ دونوں جڑواں ہی تو تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ وقت نے میاں صاحب کو بدل ڈالا اور اول انہوں نے مشرف کو ’اوور مائی ڈیڈ باڈی‘ کہہ کر آئین کا پرچم تھاما اور آج پھر وہ آئین کی بالادستی کے لیے ڈٹے کھڑے ہیں تو اس موقف کے حق میں صرف خوش فہمیاں ہیں، دلیل کوئی نہیں ہے۔ جھگڑے اور تصادم تو وہ پہلے دور میں بھی کرتے تھے اور دوسرے دور میں بھی۔ ان کا کسی بھی آرمی چیف کے ساتھ تو کیا، کسی کے ساتھ بھی نباہ نہ ہو سکا۔ فاروق لغاری ہو یا غلام اسحاق خان کوئی انہیں برداشت نہ ہو سکا۔ بے نظیر بھٹو ہی کی کردار کشی نہ کی، قاضی حسین کی بھی کردار کشی کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اصولوں کے جھگڑے نہ تھے، یہ افتاد طبع کے مسائل تھے۔ مقصود ایک ایسا اقتدار تھا جہاں صوبے میں برادر عزیز ہو اور صدارت پر رفیق تارڑ صاحب ہوں۔ ہر روز، روزِ عید ہو ہر رات شب برات۔ غیر معمولی اختیارات کے حصول پر مائل افتاد طبع کی ان شوخیوں کا آئین کی سربلندی سے کیا تعلق؟
جلا وطنی کاٹ کر جب میاں صاحب آئے تو وہ اصولی سیاست کا استعارہ تھے۔ اصولی سیاست کا یہ بقلم خود استعارہ پہلے ہی امتحان میں ناکام ہو گیا جب انہوں ایک دو تین یا چار نہیں، 146 ایسے لوگوں کو ٹکٹ جاری کر دیے جو ق لیگ کے ساتھ تھے اور دور ابتلا میں ن لیگ چھوڑ گئے تھے۔ نظریاتی کارکن منہ دیکھتے رہ گئے، جاوید ہاشمی کی اہتمام سے تذلیل کروائی گئی۔
یہ تو میاں صاحب کی ’کایا پلٹ‘ کے بعد کا دور ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کس اعلیٰ اصول کے تحت ان 146 رجال کار کو ٹکٹ دیے گئے؟
کایا پلٹ کے ان موسموں میں کیا میاں صاحب کا وزیر قانون وہی زاہد حامد نہ تھا جو مشرف صاحب کا وزیر قانون تھا؟ مشرف دور میں جو جنرل عبد القادر بلوچستان کے گورنر تھے کیا وہ بعد میں نواز شریف کی کابینہ میں تھے؟ (ان کی جگہ جنرل ضیاء الدین بٹ ہی کو وزیر بنا لیا ہوتا)۔
کیا 12 اکتوبر کے بعد ن لیگ چھوڑ کر ق لیگ میں شامل ہونے والے سردار یوسف صاحب کو کابینہ میں نہیں لیا گیا تھا؟ کیا ق لیگ کے ریاض پیرزادہ نواز شریف کابینہ کا حصہ نہ تھے؟ کیا مشرف کے پستول بدل بھائی امیر مقام کو ن لیگ میں شامل نہیں کیا گیا تھا؟ کیا ق لیگ کے دانیال عزیز کو ن لیگ نے نجکاری کی وزارت نہیں دی تھی؟
میر ظفر اللہ خان جمالی پر ویز مشرف کے وزیر اعظم تھے، باقیوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے، مئی 2013 کے آخری ہفتے کی ایک سہانی صبح جمالی صاحب کو بھی ن لیگ میں شامل کر لیا گیا۔ یاد رہے یہ میاں صاحب کے ’کایا پلٹ‘ کے بعد کے زمانے کی بات ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ صرف آئین کی بالادستی کے لیے کیا جا رہا تھا؟
ہلکے نیلے رنگ کا سوٹ پہن کر جب نواز شریف ایک جمہوری حکومت کے خلاف غداری کے الزام کے تحت سپریم کورٹ جا پہنچے تو یہ بھی ’کایا پلٹ‘ کے بعد کے موسموں کی بات ہے۔ زرداری کا پیٹ پھاڑنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی ’کایا پلٹ‘ کے بعد کے شعوری زمانے کا بیانیہ ہے۔
اس سارے عرصے میں میاں صاحب نے مسلم لیگ ن کو بطور جماعت منظم نہیں ہونے دیا، ان کے نزدیک یہ ایک سیاسی جماعت نہیں، پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی ہے۔ چنانچہ آج ان کی تحریک کا سارا دارومدار جے یو آئی کے ورکروں پر ہے۔ ان کا مقصود جمہوری کلچر کا فروغ کبھی تھا ہی نہیں۔ ان کی ساری جدوجہد ان کے ذاتی اور خاندانی اقتدارتک محدود تھی اور وہیں تک محدود ہے۔ ان کے لیے سیاسی امکانات کھل جائیں تو بیانیہ ہوتا ہے: ’چیری بلاسم، چمکے ہر دم۔‘ یہ امکانات محدود ہوتے نظر آئیں تو بیانیہ ہوتا ہے: ’ووٹ کو عزت دو۔‘
اب دہائی ہے کہ خلق خدا نکلے۔ اہل صحافت سے بھی مطالبہ ہے کچھ دن جیل جانے کو تیار ہو جائیں کیونکہ یہ آئین کی حرمت کا معاملہ ہے۔ بے رحم حقیقت مگر یہ ہے کہ عام آدمی آئین کی حرمت سے لاتعلق ہے۔ اسے نہ کبھی نصاب میں پڑھایا گیا کہ آئین کی اہمیت کیا ہوتی ہے نہ زندگی کے مسائل میں کبھی آئین نے اس کی داد رسی کی۔ آئین میں چند اقوال زریں ضرور لکھے ہیں لیکن ان پر عمل کبھی نہیں ہوتا۔ یہ اقوال زریں بھی ادھورے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آئین کے تحت صحت لوگوں کا بنیادی انسانی حق نہیں ہے اور تعلیم کا حق بھی صرف 16 سال تک ہے یعنی میٹرک تک۔ چنانچہ عام لوگ جب حکمرانوں کا تقابل کرتے ہیں تو ان کے آئینی یا غیر آئینی ہونے کی بنیاد پر نہیں کرتے، بلکہ ان کے فیصلوں اور پالیسیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اہل سیاست جب آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو عملاً وہ آئین کی صرف ان دفعات کی بالا دستی کی بات کر رہے ہوتے ہین جن کا تعلق اہل سیاست کے حق حکمرانی سے ہوتا ہے۔ آئین کی جو دفعات عوام کی فلاح سے متعلق ہیں وہ تو یہاں پہلے دن سے معطل پڑی ہیں۔ آمریت میں بھی معطل پڑی رہتی ہیں اور جمہوریت میں بھی۔
میاں صاحب کی سیاست کا تعلق اصول سے نہیں، مارکیٹ سے نہیں۔ مارکیٹ کا تعین رومان سے نہیں، موسم سے ہوتا ہے۔ گرم موسم میں آئس کرم، سرد موسم میں میوہ جات۔ پروین شاکر ہوتیں تو کہتیں: گزر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم۔