یہ تحریر آپ یہاں سن بھی سکتے ہیں
بھارت کی ایک بڑی مشہور فلم تھی ’قیامت سے قیامت تک۔‘ پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ دیکھ کر وہ فلم یاد آئی اور پھر ایک جملہ ذہن میں ابھرا ’دھرنے سے دھرنے تک۔‘
یہ جملہ اس لیے بھی یاد آیا کہ جیسے فزکس میں یونیفارم سرکلر موشن کی تھیوری پڑھی تھی ویسے ہی آج اگر پاکستان کی سیاست دیکھیں تو یہ بھی بجائے آگے بڑھنے کے گول گول گھوم رہی ہے۔ ہم سب کنویں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔
یہاں پر پہلے انتخابات ہوتے ہیں، پھر الزامات لگتے ہیں، پھر احتجاج ہوتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ انقلاب لانا ہے اور اس کے بعد حالات بہتر ہو جائیں گے۔ ہماری یہاں یہ خام خیالی ہے ہے کہ ہمارے 90 فیصد لوگ جن میں میڈیا اور دانشور موجود ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ صاف شفاف انتخابات ہو جائیں تو ہمارے مسائل حل ہو جائیں گے جبکہ انتخابات کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔
پاکستان کو ایک ذہین گورننس چاہیے، قابلیت یعنی میرٹ چاہیے اور فیصلہ ساز میرٹ کی بنیاد پر آئے ہوئے ہوں چاہے وہ پولیس کا ایک چھوٹا افسر یا کمشنر ہو۔ ہمیں ایک اہل طبقہ چاہیے جو مسائل کو سمجھتا ہو۔
ملک میں سرکاری دفاتر میں جو بھی تقرریاں ہوتی ہیں وہ اقربا پروری کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ برآمدات، درآمدات، تجارت، صنعت و پیداوار کی تمام اہم پالیسیاں سیاسی بنیادوں پر تشکیل پاتی رہیں۔ پاکستان کی معیشت کی بنیاد درآمدات پر مبنی ہو گئی اور 2017 تک پاکستان کی درآمدات 63 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی تھی۔ جبکہ پاکستان کی برآمدات 25 ارب ڈالر سے بھی کم ہو کے 19 ارب ڈالر تک آگئی تھیں۔
کرنٹ اکاونٹ خسارہ 2018 میں انتخابات کے بعد تقریبا 2 ارب ڈالرز ماہانہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان کو دنیا میں کہیں بھی آسانی سے قرضے نہیں مل رہے تھے۔ پاکستان کو یہی ریلیف چاہیے تھی۔ اس کو آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا اور جب حکومت ایسا کرتی ہے تو اس کو ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے یا دیگر مالیاتی اداروں سے آسان اقساط پر بجٹری سپورٹ بھی ملتی ہے۔
اگر آپ آئی ایم ایف پروگرام میں نہیں ہوتے تو آپ کو قرضے یا تو نہیں ملتے یا پھر بہت زیادہ شرح سود پر ملتے ہیں۔ جب آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں تو وہ آپ کو یہ کہتے ہیں کہ آپ اپنے روپے کی قدر کم کریں تاکہ آپ کی درآمدات کم ہوں اور برآمدات بڑھ سکیں، ٹیکس زیادہ اکٹھا کریں، بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کریں، سرکاری محکمے جیسے پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے وغیرہ جہاں آپ نے لوگوں کی سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی ہیں ان کو فارغ کریں۔
اب حکومت کو یہ مشکل فیصلے لینے پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری اور بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ ہے۔ اب جنہوں نے ان مسائل کو حقیقی طور پر کھڑا کیا تھا اور جنہوں نے اس گرداب میں پاکستان کو ڈالا ہے وہی حزب اختلاف ان کو آج کی حکومت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ نواز شریف نے پی ڈی ایم کے پہلے اجلاس میں جب خطاب کیا یا حزب اختلاف کی دیگر جماعتیں جب تنقید کرتی رہیں تو انہیں پانچ فیصد بھی ان مسائل پر بات کرتے ہوئے، عوام کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے پچھلے دو سالوں میں نہیں سنا۔ اب کچھ دنوں سے مہنگائی پر حزب اختلاف کے بیانات آنے لگے ہیں۔
ان مسائل کا حل اس حکومت کو گھر بھیجنا نہیں ہے کیونکہ جو بھی آئےگا وہ بھی اتنے ہی پانی میں ہوگا جتنے پانی میں یہ ہیں۔ آج سے پہلے کون سا اس ملک میں من صلوہ بٹ رہا تھا۔ بس قیمے والے نان ہی ہوتے ہیں وہ بھی پنجاب کی سیاسی جماعتوں کی ریلیوں میں۔
پاکستان کی سیاست میں تبدیلی آنی چاہیے۔ جو سلسلہ اسی کی دہائی میں شروع ہوا تھا کہ آپ نے وزیر اعظم یا وزیر اعلی بننا ہی اس لیے ہے کہ آپ اپنے آل اولاد کو نواز سکیں، مال بنا سکیں تو یہ ٹریند بدلنا ہوگا۔
دیکھا جائے تو اسی کی دہائی میں جتنے بھی لوگ سیاست میں آئے ہیں خاص طور پر متوسط طبقے سے تو وہ ارب پتی ہیں۔ پبلک آفس کا سارا نظام کرپشن پر چلتا ہے اور جب آپ پکڑے جاتے ہیں تو آپ دباؤ ڈال کے اپنے لیے ڈیل لینے کی کوششیں کرتے ہیں، جیسا اب ہو رہا ہے۔
نواز شریف اور ان کا خاندان 1982 سے 2018 تک پھر وقفے وقفے سے اقتدار میں رہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے آپس میں معاہدہ کیا ہوا تھا کہ پچھلا کہا سنا سب معاف لہذا کسی کیس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ 2020 میں نواز شریف نے نئی ڈیل کی اور خرابی صحت کی بنا پر لندن چلے گئے۔
یہی وجہ تھی جس پر مسلم لیگ ن نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کی حمایت کی۔ وہ مزید جو ریلیف چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے سارے مقدمات ختم ہوں اور مریم کو اگلے انتخابات میں راہ ہموار مل سکے۔ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے ہی ڈیل کر کے گئے لیکن وہ اسی پر حملے اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ خوفزدہ ہو جائیں اور ان کی خواہش پوری کر سکیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ڈی ایم میں وہی جماعتیں ہیں جن کو یہ ڈر ہے کہ اگر ڈیلیں نہ ملیں تو ان کی سیاست آگے چل نہیں پائے گی۔ ایک ریلیف وہ ہوتی ہے جو ادارے دیتے ہیں، دوسری وہ جو عوام دیتے ہیں۔ اداروں کی طرف سے ڈیل کے عمل میں عمران خان کی صورت میں خلل پیدا ہوگیا اس لیے وہ ڈیلیں تو ہوتی نظر نہیں آتیں۔ جو ڈیلیں عوام نے ان کو دینی تھیں ان کی بھی حالت نازک ہی نظر آرہی ہے۔ احسن اقبال، پرویز اشرف، خواجہ آصف جیسے بڑے سیاسی رہنما اور متعدد رکن پنجاب اسمبلی سینکڑوں ہزار ووٹوں سے نہیں بلکہ تیس چالیس ہزار سے کامیاب ہوئے۔
حافظ آباد، پنڈی بھٹیاں، شیخو پورہ، پتوکی، مریدکے، کاموکی، سیالکوٹ،گجرات، کھاریاں، دینا جیسے شہر ن لیگ کے گڑھ ہیں لیکن عمران خان کے ان شہروں میں جلسے ن لیگ سے بڑے؟ ان مقامات پر عمران خان کے جلسے ان تمام جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ شو پی ڈی ایم کا بھی بہت برا نہیں تھا لیکن عمران خان کا مقابلہ نہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
قوم کو شاید امید آج اس مہنگائی میں بھی عمران خان سے ہے یا پھر لوگ ان کی اس بات پر ایمان لے آئے ہیں کہ جب میں ان پر ہاتھ ڈالوں گا تو یہ سب اکٹھے ہو جائیں گے۔ کیا ان پر سےعوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے؟
ٹی وی پر بیٹھے تجزیہ کاروں اور ان جماعتوں کو بھی یہ لگتا رہا کہ آج اگر پنجاب میں انتخابات ہوں تو ن لیگ جیت جائے گی کیونکہ بزدار صاحب نے تباہی کر دی۔ پی ڈی ایم نے بھی یہی سوچتے ہوئے شاید پہلا جلسہ ن لیگ کے گڑھ میں رکھا تھا لیکن اس جماعت کے لیے جس نے 30 سال اس صوبے میں حکومت کی وہ بات نہیں بن سکی جو بننی چاہیے تھی۔
میں تو سوچتی ہوں اپنے گھر میں یہ حال تھا تو جب خیبر پختونخوا اور بلوچستان جائیں گے وہاں کیا منظر ہوگا؟ فضل الرحمن کا زور خیبر پختونخوا میں مدرسے کے بچوں پر ہوگا اور وہ آ بھی جائیں گے لیکن عمران خان کے بنوں، ضم شدہ اضلاع، کرک، بونیر، دیر اور وہاں کے دیگر بڑے جلسوں کا مقابلہ شاید پھر بھی نہ کر سکیں۔
ایک اور چیز جو گوجرانوالہ جلسے کے بعد ہوئی وہ یہ کہ اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں عمران خان نے ٹائیگر فورس کنوینشن رکھا۔یہاں بیک وقت دو ہزار دو سو افراد کی گنجائش ہے۔ یہ تو کم از کم بھرا ہوا نظر آیا۔
حزب اختلاف اور حکومتی مشق کو دیکھنے کے بعد حکومت کو چاہیے
کہ ان جلسوں سے متاثر نہ ہو اور نہ ہی جلسوں کو روکنے کی کوشش کرے، بلکہ مسلسل اپنا بیانہ عوام کے سامنے رکھتی رہے۔ وہ گورننس کو بہتر بنائے کیونکہ احتجاج سے حکومتیں نہیں ختم ہوتیں خاص طور پر تب جب دو سال بعد انتخابات کی دھاندلی یاد آئے اور آپ نے خود متعدد ادوار اقتدار میں گزارنے کے بعد بھی انتخابات کا وہ نظام نہ بنایا ہو کہ جس پر آپ کو اعتماد ہو۔
حکومت کو چاہیے کہ آنے والے ایک دو ماہ میں ہاؤسنگ پالیسی کا اعلان کرے جس میں بینک لوگوں کو چھوٹے موٹے گھروں کے لیے قرضے دینا شروع کر دیں۔ آسان اقساط پر جیسے برطانیہ اور امریکہ میں ہوتا ہے تو یہ حکومت کی بڑی کامیابی ہوگی۔
اسی طرح جو ادارے خسارے میں ہیں ان کا ہنگامی بنیادوں پر کچھ کرنا ہوگا۔ درآمدات کو بڑھانے پر کام کرنا ہوگا، مہنگائی کو قابو کرنا ہوگا۔
نوٹ: مندرجہ بالا خیالات اور رائے مصنف کی اپنی ہے، ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔