پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے پاکستان کو فی الحال گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے گا۔
ادارے نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ فروری 2021 تک بین الاقوامی طور پر طے شدہ ایکشن پلان پر عمل درآمد مکمل کرے۔
جمعے کو پلینری کے دوران پاکستان کی جانب سے مقررہ ایکشن پلان پر عمل در آمد پر جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ لیا گیا۔
اس حوالے سے ایک پریس کانفرنس میں ایف اے ٹی ایف کے سربراہ ڈاکٹر مارکس پلیا نے کہا کہ پاکستان گرے لسٹ پر برقرار رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ فورم کو اس بات کا ادراک ہے پاکستان نے پیش رفت کی ہے اور پاکستان نے ایکشن پلان کے 27 میں سے 21 نکات پر عمل کر لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے باقی ایکشن پلان پر عمل کے لیے عزم دکھایا ہے اور اگرچہ پاکستان نے پیش رفت دکھائی ہے مگر پھر بھی پاکستان کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بقول پاکستان اب عمل درآمد نہیں روک سکتا اور اسے اصلاحات جاری رکھنا ہوں گی۔ خاص طور پر چنیدہ مالی پابندیوں کا نفاذ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی۔
حکومت پاکستان کی جانب سے ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان پر عمل در آمد کے لیے بیشتر اقدامات اٹھائے گئے تھے جن میں مختلف قوانین کا اسمبلی سے پاس کرائے جانے اور عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کی روک تھام جیسے اقدامات شامل تھے۔
2018 میں گرے لسٹ پر ڈالے جانے کے بعد پاکستان کے لیے 27 ٹارگیٹ سیٹ کیے گئے تھے۔ گذشتہ فرروی میں ان میں 13 کو مکمل نہ کرنے پر پاکستان کو مزید چار ماہ دیے گئے تھے۔ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے باعث پاکستان کو مزید وقت مل گیا تھا۔
ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟
یہ ایک عالمی ادارہ ہے جس کا قیام 1989 میں جی۔سیون سمٹ کی جانب سے پیرس میں عمل میں آیا۔
اس کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ کی روک تھام تھا۔ تاہم، 2011 میں اس کے مینڈیٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اس کے مقاصد بڑھا دیے گئے۔
ان مقاصد میں بین الاقوامی مالیاتی نظام کو دہشت گردی، کالے دھن کو سفید کرنے اور اس قسم کے دوسرے خطرات سے محفوظ رکھنا اور اس حوالے سے مناسب قانونی، انضباطی اور عملی اقدامات طے کرنا تھا۔
ادارے کے کُل 38 ارکان میں امریکہ، برطانیہ، چین اور انڈیا شامل ہیں، البتہ پاکستان اس کا رکن نہیں۔
ادارے کا اجلاس ہر چار ماہ بعد، یعنی سال میں تین بار ہوتا ہے، جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی جاری کردہ سفارشات پر کس حد تک عمل ہوا۔