فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا اجلاس ماہ رواں کے آخری ہفتے میں ہونا ہے جس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ہی رکھنے سے متعلق فیصلہ آنے کے امکانات زیادہ روشن نظر آ رہے ہیں۔
ایف اے ٹی ایف، دہشت گردی اور منی لانڈرنگ جیسے امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کے خیال میں ابھی پاکستان کے لیے گرے لسٹ سے نکلنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا کا خیال ہے کہ پاکستان کا گرے سے وائٹ لسٹ میں چلا جانا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا ہے۔ 'میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو پائے گا شاید وہ ابھی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھیں گے۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کو ایف اے ٹی ایف میں عالمی برادری سے حمایت ملنا مشکل لگتا ہے ایسے میں یہ کام ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
بعض ماہرین کے خیال میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور اس میں کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار ائر وائس مارشل (ر) فائز عامر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا 'پاکستان نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی حوصلہ شکنی کے لیے کافی اقدامات اٹھائے ہیں، ایف اے ٹی ایف کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے۔'
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں کہا تھا کہ پاکستان کو جلد ہی ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکال دیا جائے گا، تاہم انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا تھا کہ ایسا کب تک ہو سکتا ہے۔
ایف اے ٹی ایف دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف کام کرنے والا پیرس میں قائم بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اس نے دو سال قبل پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا تھا جس کے باعث اسلام آباد کو بین الاقوامی طور پر بعض مالی اور دوسری مشکلات کا سامنا ہے۔
تنظیم کا ورچوئل اجلاس 21۔23 اکتوبر کو ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے یا ہٹانے سے متعلق فیصلہ متوقع ہے۔
گرے لسٹ سے نکلنا کیوں مشکل؟
ایف اے ٹی ایف کی علاقائی تنظیم ایشیا پیسیفک گروپ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو اپنی انہینسڈ فالو اپ لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا جس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے (ایف اے ٹی ایف کی) دوبارہ درجہ بندی کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے ہیں۔
گروپ کی رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی حوصلہ شکنی سے متعلق اقدامات کی تعریف کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق مطالبات پر کوئی پیش رفت نہیں کر پایا جبکہ چار نکات پر بالکل کام نہیں ہوا اور 25 پر جزوی کام ہو پایا ہے۔
ماہرین کے خیال میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ایشیا پیسیفک گروپ کی حالیہ رپورٹ کا ایف اے ٹی ایف کے فیصلوں پر کتنا اثر ہو سکتا ہے۔
اس سلسلے میں فائز عامر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف اور اس کی متعلقہ تنظیموں کو ایشیا پیسیفک گروپ کی رپورٹ کے آنے بعد پاکستان نے جو کچھ کیا اس پر غور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجودہ حکومت نے اس سال کے دوران ایف اے ٹی ایف کے مطالبات میں سے کافی پیش رفت دکھائی ہے جو بہت اہم ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے گذشتہ مہینے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی قوانین کی منظوری دی تھی۔ یہ ان قوانین ان اقدامات سے علاوہ ہیں جو پاکستان دو سال قبل ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آنے کے بعد اٹھاتا رہا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار جنرل (ر) طلعت مسعود نے اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 'پاکستان صرف ایک ایریا میں کام کر پایا ہے ابھی کافی کام ہونا باقی ہے اور میرا نہیں خیال کہ پاکستان وائٹ لسٹ میں جگہ بنا پائے گا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ ہم کافی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ دنیا کو یہ یقین دلانا بہت مشکل ہے کہ پابندی کا شکار تنظیمیں ہمارے ہاں ختم ہو گئی ہیں۔
'ان میں سے اکثر تنظیمیں ہمارے ملک میں نظر آتی ہیں تو دنیا کیسے یقین کرے گی؟ ایسے میں امکان یہی ہے کہ پاکستان ابھی کچھ عرصہ گرے لسٹ میں رہے گا۔'
پاکستان کو گرے لسٹ میں سے نکلنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے 22 اراکین میں سے کم از کم 12 ووٹ درکار ہوں گے جو ایک مشکل کام نظر آتا ہے۔
عامر رانا کا کہنا تھا کہ ملائیشیا، چین اور ترکی ہمارے حق میں ووٹ دے دیں گے اور شاید چند ایک یورپی ممالکی بھی اس مرتبہ حمایت کریں۔
ان کا خیال تھا کہ پاکستان کے لیے 12 اراکین کی حمایت حاصل کرنا کافی مشکل ہو گا۔
'اس مرتبہ تو شاید سعودی عرب بھی پاکستان کے متعلق ووٹنگ سے باہر رہے گا تاکہ اسلام آباد کے حق میں ووٹ نہ ڈالنا پڑے۔'
یاد رہے کہ پاکستان نے امریکہ کو ایف اے ٹی ایف میں اپنی حمایت پر راضی کرنے کے لیے ایک امریکہ ہی میں ایک بین الاقوامی لابیسٹ کمپنی کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔
چند دیگر عوامل جو اہم ہیں
ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کا پورا نہ ہونا پاکستان کے لیے گرے لسٹ میں رہنے کی واحد وجہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے دوسرے عوامل بھی موجود ہیں۔
جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ پاکستان کے سر پر ایک مستقل تلوار لٹکتی رہے گی تاکہ اسے کنٹرول کیا جا سکے اور اس سے فائدے حاصل کیے جا سکیں۔
اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں افغانستان ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حل ہونے تک امریکہ چاہے گا کہ پاکستان کو کنٹرول کرنے کا کوئی انسٹرومنٹ موجود ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی افغانستان کا مسئلہ پوری طرح سے حل نہیں ہوا اور اس لیے پاکستان کی اہمیت موجود رہے گی۔
فائز عامر نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کی صدارت اس وقت بھارت کے پاس جو ایک اہم بات ہے۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نہیں چاہیں گے کہ وہاں کے انتخابات سے پہلے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے۔
ان کے خیال میں: 'ٹرمپ اور مودی دونوں مل کر چاہیں گے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہے اور لگتا ہے ایسا ہی ہو گا۔'
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے آئندہ ریوو تک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنا پڑے گا۔
انہوں نے طلعت مسعود سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مسئلہ کے حل تک امریکہ نہیں چاہے گا کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالا جائے۔
'اگرچہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے کام تو کافی کیا ہے تاہم فی الحال ہمارا وائٹ لسٹ میں جانا ممکن نظر نہیں آ رہا۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رہنے کے باعث پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے امدادی رقوم کا اجرا بھی موقوف ہو سکتا ہے۔
جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہا کہ دنیا ہر طریقے سے پاکستان پر دباو ڈالنا چاہتی ہے تاکہ بڑے ملکوں کے مفادات پورے ہو سکیں۔
انہوں نے کہا کہ جغرافیائی اہمیت اور نیوکلئیر طاقت ہونے کے باوجود پاکستان کو ان چیزوں کا فائدہ نہیں مل رہا بلکہ سب کچھ الٹا ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف اور اس جیسے بین الاقوامی مظاہر کا تعلق کسی بھی ملک کے اندرونی حالات سے ہوتا ہے اور پاکستان کے اندرونی حالات بہت بہتر نہیں ہیں جس کے باعث مسائل آ رہے ہیں۔
پاکستان کے کثیر الاشاعت انگریزی اخبار ڈان نے اپنے 12 اکتوبر کے ایڈیٹوریل میں لکھا 'اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی کوششوں اور ملک کی قیادت کی رضامندی کو سراہا جائے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے مینڈیٹ کی تعمیل کے لیے مزید اقدامات کریں تاکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے خارج کیا جاسکے۔ '
اسی کے ساتھ اسلام آباد کو زیادہ شفاف ہونا چاہیے اور اسے ایک مضبوط قانونی فریم ورک بنانے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہوگا جو عالمی معیارات اور ایف اے ٹی ایف کی ضروریات کو پورا کریں۔ شفافیت کو یقینی بنا کر ہی پاکستان ان خدشات کو دور کر سکتا ہے کہ حالیہ قانون سازی کا مقصد حزب اختلاف کو شکار کرنے کے بجائے ایف اے ٹی ایف کے مطالبات کو پورا کرنا تھا۔