پاکستان کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خاطر گذشتہ دنوں امریکہ میں دو بڑی لابنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کمپنیوں اور حالیہ قانون سازی سے پاکستان اس فہرست سے نجات پا لے گا؟
ایف اے ٹی ایف کا ایک اہم ورچوئل اجلاس پیرس میں گذشتہ دو روز سے جاری ہے۔ آج وہ اپنے تازہ فیصلوں بشمول پاکستان کا اعلان کرے گا۔
خیال ہے کہ پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کا کوئی امکان نہیں لیکن گرے لسٹ سے بھی شاید اس اجلاس میں اسے نجات نہ مل سکے۔ ایف اے ٹی ایف کے پاکستان کو دیے گئے 27 ایکشن پوائنٹس میں سے چھ پر عمل درآمد باقی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ شاید پاکستان اگلے موسم بہار میں گرے لسٹ سے نکل پائے گا۔
ادھر پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں میڈیا میں چلنے والی ان خبروں کی تردید کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالے جانے کی مخالفت کی ہے یا وہ بھارت سے مل کر پاکستان کے خلاف ووٹ کرے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے ان اطلاعات کو بےبنیاد قرار دیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے لیے ہیوسٹن میں قائم ’لِنڈن سٹریٹجیز‘ کی ذیلی کمپنی ’لِنڈن گورنمنٹ سلوشنز‘ کی خدمات اس سال اپریل میں حاصل کی گئی تھیں۔ یہ فرم بین الاقوامی کلائنٹس، جن میں ممالک بھی شامل ہیں، کو حکومتی تعلقات اور کاروبار کے فروغ کے لیے تجزیے اور مشورے فراہم کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے 40 ممالک کو خدمات فراہم کرتی ہے۔
اسی فرم نے پاکستان کی 2001 سے لے کر 2004 تک نمائندگی کی تھی۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ساتھ معاہدے کے بعد ایک بیان میں اس کا کہنا تھا کہ اس کا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے گہرا پس منظر ہے۔
لنڈن کے صدر سٹیفن پین سرکاری امور اور پبلک ریلیشنز کا 25 سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لنڈن ٹیم پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے بنیادی دو طرفہ مسائل کے ساتھ ساتھ پیچیدہ ذیلی اقدامات میں بھی مدد دے گی۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اس کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کی تصدیق کی تاہم ساتھ ہی کہا کہ اس فرم کی خدمات دوطرفہ امور کے لیے حاصل کی گئی ہیں۔ انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایف اے ٹی ایف کا نام لینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک اور فرم ہالینڈ اینڈ نائٹ کے ساتھ بھی گذشتہ برس وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں خدمات کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہالینڈ اینڈ نائٹ کے سال 2005 میں ایک بیان کے مطابق وہ ماضی میں پاکستان سمیت کئی ممالک میں کرپشن کی تحقیقات کر چکی ہے۔
تاہم سینیئر تجزیہ کار سراج اکبر سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں لابنگ پر اچھا خاصا پیسہ خرچ کرنے کے باوجود بھی پاکستان کو اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں ملیں گے جب تک پاکستان ایف اے ٹی اے کی جانب سے نشاندہی کیے گئے اقدامات نہ اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا: ’تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان جن مقاصد کے لیے واشنگٹن میں لابنگ پر خاصا پیسہ خرچ کرتا ہے اور جو اس کے قومی مفادات کی فہرست میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں، ان معاملات پر پاکستان کو عموماً اس کی خواہشات کے مطابق نتائج نہیں ملتے۔ اس کی ایک بڑی مثال کشمیر پر پاکستان کا موقف ہے، جس کے لیے واشنگٹن کی حمایت حاصل کرنے اور وہاں مبینہ بھارتی جارحیت کے خلاف امریکی حکومتوں کی توجہ حاصل کرنے میں پاکستان خاصا پیسہ خرچ کرنے کے باجود بھی کامیاب نہیں رہا ہے۔‘
سراج اکبر نے مزید کہا کہ ’ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں بھی پاکستان نے حال ہی ایک امریکی لابنگ فارم کی خدمات حاصل کی ہیں لیکن اس سے نہیں لگتا کہ ایف اے ٹی ایف جو فیصلہ کرنے والی ہے اس پر کوئی بڑا اثر پڑے گا۔ پاکستان کو امریکہ میں لابنگ سے زیادہ خود منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات ہی بچا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ پاکستان کی طرف اوباما انتظامیہ کے مقابلے میں کم جارحانہ رہا ہے، تاہم مجھے نہیں لگتا کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی معاونت کے معاملے میں پاکستان کی اس وقت تک حمایت کریں گے جب تک وہ پاکستان کو صحیح سمت میں اقدامات اٹھاتے ہوئے نہیں دیکھتے۔‘
اس کے علاوہ واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔
پاکستان کو ایکشن پوائنٹس پر عمل درآمد کے لیے اکتوبر 2019 کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی، جس کی بعد میں توسیع کی گئی تھی۔
ایف اے ٹی ایف کا اس سے قبل آخری اجلاس 24 جون 2020 کو ہوا تھا۔ ادارے کے اس تازہ بیان کے مطابق ایف اے ٹی ایف اپریل میں ہی پاکستان سمیت 16 ممالک کی کارکردگی کے جائزے میں کرونا وائرس کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے چار ماہ کی توسیع کر چکا تھا۔
لنڈن کے صدر کا پاکستان کے لیے ماضی کی خدمات یاد کر کے مزید کہنا تھا کہ ان کی کوششوں سے پاکستان پر امریکی پابندیاں ختم ہوئیں اور پاکستان نائن الیون کے بعد القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنا۔ ’اسی کی کاوشوں سے پاکستان کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ، تین ارب ڈالرز کی امداد اور عسکری سازوسامان حصول میں مدد ملی۔‘
پاکستان کو بھارت کی شدید مخالفت کے باوجود ترکی اور چین جیسے دوستوں کی اس مسئلے پر حمایت حاصل ہے۔ بھارتی میڈیا کی قیاس آرائیوں کے مطابق چین نے اس فرم کی خدمات حاصل کرنے میں مدد دی تاکہ اس کا سی پیک منصوبہ معاشی پابندیوں سے بچ جائے۔
ماہرین کے مطابق اس امریکی فرم کو جو اہداف دیئے گئے ہیں ان میں امریکی انتظامیہ کو یہ یقین دلانا ہے کہ افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، القاعدہ اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم افغانستان میں وجود رکھتی ہیں اور انہیں وہاں ضروری فنڈز دستیاب ہیں۔
اس کے علاوہ لشکر طیبہ کے خلاف سرکاری سطح پر قانونی کارروائیاں کی گئی ہیں اور ان کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی مالی مدد کے مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ جیش محمد کے رہنماؤں کی پاکستان میں موجودگی سے اسلام آباد انکار کرتا ہے۔