توشہ خانہ: تحائف فوجی و سرکاری افسران ہی کیوں خرید سکتے ہیں؟

نیلامی کی شرائط کے مطابق بیرونی ممالک سے پاکستان کے صدر اور وزرائے اعظم کو تحفے میں ملنے والی اشیا صرف سیکیورٹی اور سرکاری اداروں کے افسران خرید سکیں گے جب کہ کوئی بھی سیاسی،سماجی شخصیت یا عام شہری یہ اشیا خریدنے کا حق نہیں رکھتے۔ 

(اے ایف پی)

پاکستان کے توشہ خانہ میں جمع ہونے والے قیمتی تحائف کی نیلامی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق توشہ خانہ میں موجود 177 قیمتی اشیا کی نیلامی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

توشہ خانہ حکام کے مطابق ان اشیا کی قیمت ایف بی آر اور مارکیٹ ماہرین نے طے کی ہے۔ جو خریدار مطلوبہ چیز خریدے گا اسے طے شدہ رقم جمع کرانا لازم ہوگی۔

نیلامی کی شرائط کے مطابق بیرونی ممالک سے پاکستان کے صدر اور وزرائے اعظم کو تحفے میں ملنے والی اشیا صرف سکیورٹی اور سرکاری اداروں کے افسران خرید سکیں گے جب کہ کوئی بھی سیاسی، سماجی شخصیت یا عام شہری یہ اشیا خریدنے کا حق نہیں رکھتے۔ 

سینیئر صحافی انور رضا نے اس شرط کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ 

نیلامی میں خریداری کاطریقہ کار

توشہ خانہ کی سیکشن آفیسر ندارحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہاکہ توشہ خانہ میں جمع شدہ قیمتی اشیا کی نیلامی چوتھی بار ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے 2017 میں ہوئی تھی اور قوانین میں تبدیلی بھی کی گئی تھی۔ 

انہوں نے کہاکہ ان قیمتی اشیا کی نیلامی میں حصہ لینے والے اشیا پسند کرنے کے بعد 23 نومبر تک قیمت لگا کر ڈیمانڈ جمع کرائیں گے، ان کی جانب سے جمع کرائی گئی قیمتوں کی پرچیاں 25 نومبرکو تمام بولی دہندگان کے سامنے کھولی جائیں گی، جو زیادہ قیمت لگا چکا ہو گا اسے مطلوبہ چیز دے دی جائے گی۔ 

ان سے پوچھا گیا کہ سکیورٹی اور سرکاری افسران کے علاوہ کوئی عام شہری یہ نوادرات کیوں نہیں خرید سکتا؟

انہوں نے کہا کہ یہ پہلے سے طے شدہ قانون ہے جس کے لیے کابینہ نے منظوری دے رکھی ہے اس لیے اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ملکی اعلیٰ شخصیات کو دوسرے ممالک دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی قیمت کا تعین ایف بی آر حکام اور مقامی مارکیٹ کے ماہرین کی جانب سے کرایا جاتا ہے۔ ان قیمتوں میں ردوبدل نہیں ہو سکتا نہ ہی کوئی چیز تبدیل ہو سکتی ہے۔

ندا رحمٰن کے مطابق سرکاری دورے پر جانے والی کسی بھی شخصیت کو بیرون ملک سے تحفہ ملنے پر اس چیز کو اگر وہ خود رکھنا چاہیں تو پہلے اس کی کل مالیت کی 15 فیصد رقم اور اب 50 فیصد رقم خزانے میں جمع کرانا لازم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان اشیا کی نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم سرکاری خزانے میں جمع ہوتی ہے۔

توشہ خانہ میں موجود قیمتی تحائف میں ایک گھڑی کی قیمت ڈیڑھ کروڑ مقرر کی گئی ہے جب کہ لاکھوں روپے مالیت کے ہار، نیکلس، سونے کی تسبیح، گھڑیاں، انگوٹھیاں، جھمکے، قیمتی ساڑھی و خنجر بھی نیلام ہوں گے۔

قانونی حیثیت اور سابق عہدیداروں پر مقدمات

توشہ خانہ میں آنے والی قیمتی اشیا اور سابق اعلی عہدیداروں پر بننے والے مقدمات سے متعلق سینیئر صحافی انور رضا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایاکہ دوسرے ممالک سے سرکاری دوروں کے دوران ملنے والے قیمتی تحفے پاکستانی اعلی عہدیدار توشہ خانہ میں جمع کرانے کی بجائے خود رکھنے کو ترجیح دیتے رہےہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ پاکستانی قانون کے مطابق صدر، وزیر اعظم یا کوئی بھی اعلیٰ شخصیت سرکاری دورے کے دوران دوسرے ممالک سے ملنے والے تحفے کی قیمت کا تعین کرانے کے بعد کل رقم کا 50 فیصد جمع کرانا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری سمیت وزرائے اعظم نواز شریف، یوسف رضا گیلانی کے خلاف نیب میں کیس بنے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان شخصیات نے بیرونی ممالک سے ملنے والی قیمتی گاڑیاں قانون کے مطابق حاصل نہیں کیں، ان کی مالیت کے مطابق جو خزانے میں رقم جمع کرانا تھی وہ نہیں کرائی گئی۔

نواز رضا کے مطابق توشہ خانہ میں جمع قیمتی اشیا کی نیلامی میں صرف سکیورٹی اور سرکاری افسران کو شرکت کی دعوت خلاف قانون ہے کیونکہ ریاست کی ملکیت میں آنے والی چیزوں کی نیلامی میں ہر شہری کو حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔ اس کے برعکس مخصوص طبقہ کو یہ حق دینے سے عام لوگوں کو کمتری کا احساس دلانے اور افسر شاہی کی بالادستی کی علامت ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان