سچ بہرحال یہی ہے کہ اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کو جتنا کمزور سمجھنے لگی ہے اتنی کمزور وہ ابھی ہوئی نہیں لیکن اس سے زیادہ خوفناک سچ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خود کو جتنا طاقتور سمجھ رہی ہے اتنی طاقتور بھی نہیں رہی۔
پہلے خبر کا ذریعہ ریڈیو، پی ٹی وی اور گنے چنے اخبارات ہی ہوا کرتے تھے جنہیں خواہش کے مطابق نا صرف مینج کرنا آسان ہوتا تھا بلکہ فطری طور پر خبر بھی چیونٹی کی رفتار سے چلتی جس کی وجہ سے رائے عامہ کو منظم ہونے میں دقت پیش آتی۔
لیکن بدلتے ہوئے زمانے اور سوشل میڈیا کی برق رفتار اور بولڈ یلغار نے ناصرف اس ’مورچے‘ پر قبضہ جما دیا بلکہ فریق مخالف کو یہاں سے کمک بھی فراہم کر رہی ہے، جس کا وہ بھرپور فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔
لیکن اس پر زیادہ شادیانے بجانے کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ طاقت کی تبدیلی اور توازن کا اصل منبع عدالتی نظام کی بہتری اور عوامی بیداری ہی سے برآمد ہوتا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جس کا ادراک سیاسی رہنماؤں کو حاصل ہے۔ کیونکہ اس حوالے سے صورتحال ابھی بہتری کا متقاضی ہے۔
تبھی تو نواز شریف کے جارحانہ رویے کو فی الحال پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین بھی اپنانے سے ناصرف گریزاں ہیں بلکہ خود کو اس سے ایک فاصلے پر رکھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی سے ایک انٹرویو میں عملی طور پر اس رویے کا اظہار بھی کیا اور پیپلزپارٹی کو ’انتہائی مخالفت‘ سے بچانے کی کوشش بھی کی جبکہ مولانا فضل الرحمٰن پی ڈی ایم کی سربراہی کے باوجود بھی احتیاط اور خاموشی کی جانب مائل نظر آتے ہیں۔
دوسری طرف ماضی میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ مخالف عوامی نیشنل پارٹی محض خانہ پری پر اکتفا کیے ہوئے ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں اسفند یار ولی تو درکنار اس کے بیٹے ایمل ولی خان نے بھی شرکت نہیں کی اور دوسری صف کے رہنماؤں میاں افتخار اور حیدر ہوتی کو جلسوں میں بھیجتے رہے۔
یہاں تک کہ حیدر ہوتی کی تقریر پر تو ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی کی تقریر کا گمان ہونے لگا۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے درمیان جن نکات پر اتفاق ہوا تھا اس کا عملی مظاہرہ ہر جماعت مختلف طریقے سے کرنے لگی ہے یا دوسرے لفظوں میں، دوسری جماعتیں نواز شریف کے بیانیے کی کھلی حمایت سے گریزاں ہیں اور وہ قدرے آسان ہدف یعنی عمران خان اور اس کی حکومت پر ہی نشتر زنی کر کے ممکن اور محفوظ سیاست کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
نواز شریف اور دوسرے رہنماؤں کے درمیان اس واضح تضاد اور دراڑ کی کچھ منطقی وجوہات بھی ہیں۔ مثلاً نواز شریف اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔
نواز شریف اپنے خاندان اور پارٹی رہنماؤں سمیت قید و بند، مقدمات اور میڈیا ٹرائل کا سامنا کر رہا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمٰن کا نوکر پیشہ بھائی کرپشن کے الزامات کے باوجود بھی ایک دن کے لیے جیل نہیں گیا۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بھی رواں دواں ہے جبکہ اسفند یار ولی کے حد درجہ قریبی اور سابق مشیر (صوبائی وزیراعلیٰ) سید معصوم شاہ کی نیب سے رہائی کے بعد تاحال راوی طویل عرصے سے چین ہی چین لکھتا چلا آ رہا ہے۔
البتہ محمود خان اچکزئی کا رویہ قدرے جارحانہ ہے لیکن یہ ان کا مخصوص انداز سیاست بھی ہے اور وہ خالی ہاتھ بھی ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پی ڈی ایم کے اندر نواز شریف کی تنہائی انہیں کمزور پوزیشن پر لے جائے گی کیونکہ وہ اپنی سیاسی مقبولیت کے عروج پر ہیں اور ماننا پڑے گا کہ پی ڈی ایم کی مقبولیت بھی نواز شریف کی ذات سے ہی جڑی ہے کیونکہ احتجاج اور ناراضی کی جانب مائل سب سے بڑے سیاسی میدان (پنجاب) میں انہیں ایک دیوتائی عقیدت کی مانند چاہا جاتا ہے بلکہ حال ہی میں گلگت بلتستان میں مریم نواز شریف کے حیرت انگیز جلسوں نے تو پنجاب سے باہر بھی اس مقبولیت کے مزید شواہد فراہم کر دیے ہیں، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے تو کسی جماعت کا ’دوستانہ رویہ‘ ایسٹیبلشمنٹ کے لیے اس وقت تک فائدہ مند ہرگز نہیں جب تک نواز شریف خود اس سلسلے میں اپنے حلیف جماعتوں کے قائدین کے ہمنوا نہ ہو جائے۔ فی الحال اس کے امکانات بہت کم ہیں لیکن خارج از امکان ہرگز نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بظاہر تو اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان معاملات ساکت ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر چلے گئے ہیں، لیکن عمیق مشاہدہ اور خبر تک رسائی رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا نقطۂ نظر اس سے الگ ہے۔
وہ مختلف اوقات میں ہوتے واقعات کو ایک ترتیب کے ساتھ جوڑ کر نتائج اخذ کرتے ہیں۔ مثلاً کرونا کی وجہ سے اگست میں ملتوی ہونے والے گلگت بلتستان کے انتخابات میں مسلم لیگ نے 24 حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں نو امیدواروں کو بزور قوت پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن گلگت سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق ان میں سے صرف ایک امیدوار بمشکل جیت پائے گا۔
جبکہ راولپنڈی جیسے شہر میں مسلم لیگ کا ورکرز کنونشن پی ڈی ایم جلسوں میں مریم کی مسلسل شرکت اور جارحانہ لہجہ، حساس اداروں کی باوقار اور معنی خیز خاموشی جبکہ لندن میں سلمان شہباز اور حسن نواز سے بعض لوگوں کے رابطے رفتہ رفتہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے شواہد فراہم کر رہی ہے۔ جو یقینا اثبات کی سمت پیش قدمی ہے۔
ضروری یہ بھی نہیں کہ سب کچھ ایسا ہی ہو جیسا ہم سوچ رہے ہیں، لیکن یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور نواز شریف کی مقبولیت میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنا ایک خوفناک حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اور شاید اس حقیقت کا ادراک ہونے بھی لگا ہے۔ دیر سے ہی سہی لیکن یہ بات قابل ستائش ضرور ہے۔