ڈونلد ٹرمپ کے اطلاعات کے سابق ڈائریکٹر اینتھنی سکیراموچی نے ان کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہٹلر کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما سب کچھ تباہ کر دیں گے لیکن اپنی کھوکھلی انا کی غلامی نہیں چھوڑیں گے۔
اس وقت زیر بحث نقطہ ان رویوں کا تھا جس کی وجہ سے ایک طویل اور تکلیف دہ ووٹوں کی گنتی کے عمل والا امریکی انتخاب اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دعوی کر دیا کہ وہ جیت گئے ہیں اور ان کی جیت کو ایک سازش کے ذریعے ہار میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اس کے بعد انہوں نے متعدد مرتبہ اپنے بیانات کے ذریعے ووٹوں کی گنتی کو روکنے کی بات کی اور اپنے ووٹرز کو اکسایا کہ وہ انتخابی نتائج کو قبول نہ کریں۔ بعد میں بننے والی انتخابی تصویر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اور بھی غصہ دلا دیا اور جنجھلاہٹ میں انہوں نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ امریکہ کی صدارتی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورکس میں سے بعض نے ان کے بیانات کو بڑھا چڑھا کر نشر کیا اور اس طرح امریکہ میں نفرت، ہیجان اور افراتفری کو مزید تقویت دی۔ لیکن سنجیدہ ذرائع ابلاغ میں ٹرمپ کے بیانات کے حوالے سے بحث ندامت، شرمندگی، افسوس اور پریشانی سے بھری ہوئی تھی۔
جو سوال بار بار اٹھایا جا رہا تھا وہ یہ تھا کہ کوئی شخص اتنا ذمہ دار عہدہ رکھنے کے باوجود ایسے گرے ہوئے انداز میں کیوں کر اپنی بچی کھچی سیاسی وقعت کو مزید گرا سکتا ہے۔ وہ کیوں نہیں مان رہا جو سب پر عیاں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق کمیونیکیشن ڈائریکٹر نے اس کی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ خود پرستی کی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جو انہیں اپنے علاوہ کسی اور کی اہمیت کا احساس نہیں ہونے دیتی۔ وہ اصل میں احساس کمتری کے مارے ہوئے ہیں اور ان کی تمام تر دولت، شہرت اور امریکی صدارت کی ذمہ داری جیسی کامیابیاں ان کو اس بلا کے چنگل سے آزاد نہیں کروا پا رہیں۔
ایک اور تجزیہ نگار نے اضافہ کرتے ہوئے یہ نقطہ بیان کیا کہ ٹرمپ ساری زندگی جھوٹ اور حقائق شکنی کرتے ہوئے اس عمر تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے جھوٹ کے ذریعے اپنے آپ کو سیاست میں کامیاب کروایا۔ اب وہ دوسروں میں خوف پیدا کر کے اپنی اہمیت اجاگر کرتے ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ہر اصول اور قاعدہ توڑ دیں گے لیکن حقیقت تسلیم نہیں کریں گے۔
اس تجزیہ نگار کے مطابق ٹرمپ سر پھرا نہیں اور نہ ہی ضد اس کا خاصہ ہے۔ وہ ایک بزدل اور انا پرست شخص ہے جو اپنی عادتیں چھوڑنے سے قاصر ہے۔
ٹرمپ کے حامیوں کو اپنے رہنما کے بارے میں ایسی باتیں نہیں بھاتیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف اس کے پرانے ساتھی یا امریکہ کا سنجیدہ میڈیا ہی نہیں کہہ رہا بلکہ دنیا بھر میں اس کے بارے میں یہی تصور پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر ٹرمپ کے رویوں کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ یہ سیاسی طور پر ان کے لیے بہت کارآمد بھی ثابت ہوئے ہیں۔ دوسروں کو جھوٹا کہہ کے اپنی دروغ گوئی کے ریکارڈ پر کامیابی سے پردا ڈال دیا۔ ہر کسی کی کردار کشی کی، کسی کی عمر کا مذاق اڑایا اور کسی کے بولنے کے انداز کا۔ کسی کو سازشی قرار دیا اور کسی کے رنگ اور جنس کو اس کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
انٹ شنٹ بول کر ساتھیوں کو اس کی سچائی ثابت کرنے پر لگا دیا۔ اٹل حقائق کو نظر انداز کر کے دیو مالائی قصے بیان کر دیئے اور سب پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جیسے ان جیسا عالم، فاضل، متقی، پرہزگار، عیسائیت کے تمام اصولوں کا تابعدار، کھلے دل و اعلی دماغ والا شخص کرہ ارض پر نہیں ہے۔
انہوں نے چار سال روزانہ ایک نیا سکینڈل بنایا اور اس کے لیے انہوں نے اپنا ٹوئٹر، میڈیا کی ٹیم اور فوکس نیوز جیسے نیٹ ورکس کو خوب استعمال کیا۔ نتیجتا ان کے کروڑوں سپورٹرز یہ سمجھنے لگے کہ وہ کوئی چھچھورا یا مسخرہ نہیں بلکہ ایک قابل شخص ہے جس کو اس کے مخالفین امریکہ کی دشمنی میں زمین پر گرانا چاہتے ہیں۔
دائیں بازو والے مذہبی دھڑے ٹرمپ کو خدا کی طرف سے خصوصی تحفہ قرار دیتے ہیں اور ان میں ایک جس نے اس موضوع پر کتاب بھی لکھی، یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اگر ٹرمپ کو کچھ ہو گیا تو امریکہ تباہ ہو جائے گا۔ غلط بیانی، افسانہ نگاری، حاشیہ آرائی، اوٹ پٹانگ تھیوریاں اور خوف کی اس منڈی نے ٹرمپ کو سیاسی کاروباز چمکانے میں بڑی مدد کی۔
2016 کے انتخابات میں انہوں نے امریکہ کو عظیم بنانے کے بارے میں جو نعرے لگائے تھے 2020 میں ان کا اختتام دنیا بھر میں امریکہ کی سیاسی سبکی کی صورت میں سامنے آیا لیکن انہوں نے ووٹ پھر بھی خوب حاصل کیے۔
یاد رہے کہ امریکہ خود کو مارکیٹ کرنے کے لیے اپنی جمہوری نظام کا ہر طرف پرچار کرتا ہے۔ صدیوں پر محیط اس طریقہ کار میں زمانے کے مطابق تبدیلیاں تو آئیں لیکن یہ احساس تفخر کم نہیں ہوا کہ ان کے پاس نمائندگی کا ایک ایسا نظام موجود ہے جس سے دنیا کو سیکھنا چاہیے۔
ٹرمپ نے اپنی انا کے بلڈوزر کے نیچے اس امریکی بیانیے کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ جب ایک امریکی صدر یہ کہہ رہا ہو کہ عوامی ووٹ چرائے جا رہے ہیں، انتخابی فراڈ ہو رہا ہے، جھوٹے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں اور اس کی جیت کو ہار میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو اس کے بعد امریکہ کس منہ سے دوسرے ممالک کو کہے گا کہ ہمارا نظام اپنائیں؟
نقاد ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو استعمال کر کے یہ کہیں گے جو ملک اپنے صدر کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کو صحیح طریقے سے نہیں گن سکتا وہ کسی کی رہنمائی کیا کرے گا؟ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ تمام ہدایت، مشورے، تاکید، تنقید ویسے ہی رہی جیسے چکنے گھڑے پر پانی۔
انہوں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں نے جاتے جاتے ایسا فساد کھڑا کرنا ہے کہ ہر امریکی یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد۔
امریکہ سے باہر رہنے والے تجزیہ نگاروں کے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے نتائج کے دوران کیسی حرکتیں کیں۔ چار سال کی صدارت میں اس نے دنیا کو حیران کرنے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔
اصل حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ جیسا شخص اپنی جماعت کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار کیسے بن گیا اور کیسے اپنی تمام تر ذہنی پستی کے باوجود ایسے اعلی عہدے پر فائز ہوا؟ امریکی اپنے نظام کے توازن کی بڑی بات کرتے ہیں جس کے توسط اقتدار اور طاقت آئینی حدود و قیود کے باعث اپنے قدرتی جبر کو قید میں رکھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ اس کو چیکس اینڈ بیلینسز کہتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ پر نہ تو کوئی چیک تھا نہ اس کے اطوار میں کوئی بیلینس۔
ٹرمپ کی اٹھان اور سیاسی مقبولیت امریکہ کے نظام کی ان خرابیوں کی نشاندہی کرتی ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے چھوٹے اور نااہل امیدوار بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ٹرمپ کی مثال صرف امریکہ کے لیے ہی سبق آموز نہیں۔ ہر وہ ملک جہاں بندر کے ہاتھ میں ماچس تھما دی گئی ہے اس سے سیکھ سکتا ہے۔