نئے پاکستان کو پرانے کپتان کی ضرورت ہے۔ یہ پرانے والا عمران خان کہیں سے مل جائے تو معاملات آج بھی سدھر سکتے ہیں۔
پرانا عمران کیا تھا؟ آئیے ذرا یاد کرتے ہیں۔
پرانا عمران جذباتی نہیں ہوتا تھا۔ وہ جب کھیل کے میدان میں اترتا تھا تو ایک عجیب سا وقار اور ٹھہراؤ اس کی ذات میں سمٹ جاتا تھا۔
یہ تحریر کالم نگار کی آواز میں سننے کے لیے یہاں کلک کریں
21 سالہ کرکٹ کیریئر میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب شدت جذبات میں عمران خان نے اپنے اس وقار اور ٹھہراؤ پر کمپرومائز کیا ہو۔ ٹیسٹ کرکٹ میں 362 اور ون ڈے میں 182 وکٹیں لینے والے عمران خان کو کسی نے ایک بار بھی وکٹ لے کر دوسرے بولروں کی طرح اچھلتے کودتے یا چیخیں مارتے نہیں دیکھا۔ بڑی سی بڑی فتح بھی عمران سے اس کی متانت نہیں چھین سکی۔
ورلڈ کپ کی فتح عمران خان کے کیریر کا نقطۂ عروج تھا۔ عمران کی گیند پر جب رمیز راجہ نے کیچ پکڑا تو پاکستان پہلی بار ورلڈ چیمپیئن بنا۔ لیکن اس مرحلے پر بھی عمران جذباتی نہیں ہوا۔ اس نے کوئی ایسا کام نہیں جو اس کی روایتی متانت، وقار اور سنجیدگی سے فروتر ہو۔ بس جیت کے احساس کے ساتھ دونوں بازو اوپر کیے اور اگلے ہی لمحے خود کو تھام لیا۔
پرانا عمران مشتعل بھی نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کسی نے اسے میدان میں ساتھی کھلاڑیوں پر چیختے چلاتے اور ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ وسیم اکرم جب اس کے معیار کی بال نہیں پھینکتا تھا تو وہ صرف رن اپ پر اس کے ساتھ چلتے چلتے اسے کچھ کہہ دیتا تھا۔ مس فیلڈنگ پر صرف ایک ناراض سی گھورکی دیتا تھا اور کھلاڑیوں کے لیے وہی کافی ہو رہتی تھی۔ کسی کھلاڑی کی کمزور کارکردگی سے ناراض ہو کر یا کسی ٹیم سے ہارنے کے بعد غصے کی حالت میں، اس نے کبھی منہ پر ہاتھ پھیر کر کسی کو یہ نہیں کہا تھا کہ تمہیں چھوڑوں گا نہیں، تمہیں دیکھ لوں گا میں۔ کسی جنگجو قبیلے کے بوڑھے سالار کی طرح، من کی دنیا میں کتنا ہی جوار بھاٹا کیوں نہ ہو، وہ پر سکون ہی رہتا تھا۔
پرانا عمران میڈیا ٹاک کرنے اور لمبے لمبے خطابات فرمانے کا بھی شوقین نہیں تھا۔ وہ اپنا موقف اپنی زبان سے نہیں، اپنی کارکردگی سے دیتا تھا۔ اسے ترجمانوں کے لشکر رکھ کر اپنی قابلیت بیان کروانے کی کوئی حاجت نہ تھی۔ اس نے کبھی میچ سے پہلے لمبی چوڑی پریس کانفرنسیں نہیں کی تھیں کہ میں مخالف ٹیم کو چھوڑوں گا نہیں۔ آج تو میں انہیں رلا دوں گا۔ میں انہیں فالو آن کر دوں گا۔ آج کے بعد وہ نیا عمران خان دیکھیں گے۔ ایسے باؤنسر ماروں گا دانت توڑ دوں گا۔ صرف ا س کی کارکردگی بتاتی تھی وہ اس میدان کا شہسوار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پرانا عمران جب تک میدان میں رہا اپنی کارکردگی کی بنیاد پر رہا۔ کبھی اسے یہ طعنہ نہیں ملا کہ وہ کسی سلیکٹر کا لاڈلا ہے یا کسی کوچ کا چہیتا۔ اس کی ساری قوت اس کا اپنا زور بازو تھا۔ ایک دن بھی وہ کسی بیساکھی کے سہارے نہیں کھڑا رہا۔
پرانے عمران کی اخلاقی برتری مسلمہ تھی۔ وہ میچ ہارنے کا خطرہ تو مول لے لیتا تھا لیکن اسے یہ گوارا نہ تھا کہ اس کی اخلاقی برتری پر کوئی حرف آئے۔ وہ اپنے اخلاقی وجود کے باب میں اتنا حساس تھا کہ بھارت جیسے حریف سے کھیلتے ہوئے بھی اسے ایسی جیت گوارا نہ تھی جس پر انگلی اٹھ سکے۔ وقار یونس نے سری کانت کو آوٹ کر دیا تھا، ایمپائر نے انگلی اٹھا دی تھی لیکن سری کانت پویلین کو جاتے ہوئے مطمئن نہ تھے تو عمران نے انہیں واپس بلا لیا کہ آپ بیٹنگ کیجیے۔ یہ کرکٹ کی دنیا کا انوکھا واقعہ تھا۔ ہر کوئی حیران تھا۔ پریشان کمنٹیٹر کے الفاظ تھے: ٹیکنیکلی ہی ہیز نو اتھارٹی ٹوڈو دیٹ۔ لیکن وہ عمران تھا اور اخلاقی برتری سے زیادہ اسے کچھ عزیز نہ تھا۔
پرانا عمران اپنی ٹیم خود سلیکٹ کرتا تھا۔ پی سی بی یا کسی سلیکٹر کی جرات نہ تھی کہ بھان متی کا کنبہ اکٹھا کر کے عمران کو دے دیتا کہ جاؤ تم اس ’بلال گنج‘ کے کپتان ہو۔ وقار یونس اور انضمام الحق کو جس طرح عمران نے ٹیم کے لیے منتخب کیا، کوئی اور ہوتا تو اس کا تصور بھی نہ کر سکتا۔ پرانے عمران نے جن کھلاڑیوں کو چنا میرٹ پر چنا۔ پاکستان کرکٹ ایک عرصہ ان ہی کے بل بوتے پر کامیابیاں سمیٹتی رہی۔ ایک آدھ کے علاوہ عمران کے ہر انتخاب نے اپنا آپ منوایا۔
پرانے عمران کو اپنی ٹیم سے جڑے معاملات کی خبر ٹی وی سے نہیں ملتی تھی۔ یہ خبر سب سے پہلے اس کے پاس آتی تھی۔ وہ اپنے فیصلے خود کرتا تھا۔ ڈریسنگ روم میں کپتان ہوتا تھا اور اس کی ٹیم۔ چیئرمین پی سی بی کو بھی یہ ہمت نہ تھی وہ ڈریسنگ روم میں جا گھستا۔ ایک چیئرمین ڈریسنگ روم میں جا گھسا تو کپتان نے نکال باہر کیا کہ تمہارا یہاں کوئی کام نہیں۔
پرانے عمران میں سپورٹس مین سپرٹ بھی انتہا کی تھی۔ 87 کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں اسے غلط آؤٹ دیا گیا۔ سب کو نظر آ رہا تھا فیصلہ غلط ہے۔ سری کانت کی طرح کوئی احتجاج نہیں کیا۔ احتجاج تو دور کی بات، اس نے باڈی لینگویج کی متانت اور وقار پر بھی کوئی فرق نہ آنے دیا۔ وہ بریو ہاٹ کے ہیرو کی طرح وقار اور بانکپن کے ساتھ پویلین کو لوٹ گیا۔
پرانا عمران جب رن اپ سے سٹارٹ لیتا تھا تو اس کے رستے میں کوئی یو ٹرن نہیں آتا تھا۔ اس کی سمت بڑی واضح ہوتی تھی اور وہ پوری یکسوئی کے ساتھ بروئے کار آتا تھا۔
پرانا عمران اپنے فیصلوں کی اوونر شپ لیتا تھا۔ اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میری ٹیم کمزور ہے یا میرے کھلاڑی نا تجربہ کار ہیں، اور نئے نئے ٹیم میں آئے ہیں۔ جیت ہو یا ہار، وہ پورے قد کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ اس نے کبھی کوئی حیلہ بہانہ نہیں کیا۔
پرانا عمران خان اپنے حریف کے انتخاب میں بھی معیار کا قائل تھا۔ وہ دوسرے اور تیسرے درجے کے حریفوں کے مقابل نہیں آتا تھا۔ سری لنکا نے کمزور ٹیم بھیجی تو اس نے اسے بی ٹیم قرار دے کر کھیلنے ہی سے انکار کر دیا تھا۔
نئے پاکستان کو آج اس پرانے عمران خان کی ضرورت ہے۔
یہ پرانا عمران خان کہاں ہے؟ یہ کہاں سے ملے گا؟