امریکہ کے مختلف شہروں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہفتے کو شروع ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں شہریوں نے حصہ لیا اور امریکی صدر کے انداز حکومت اور پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ’ہینڈز آف‘ نامی مہم میں امریکہ کی 50 ریاستوں میں 1200 مقامات پر لوگوں نے مظاہرے کیے جن میں 150 گروپوں نے حصہ لیا۔
ان افراد میں حقوق کی تنظیموں کے کارکنان، لیبر یونینز، انتخابات سے منسلک کارکنان شامل تھے جنہوں نے پرامن احتجاج جاری رکھا۔ تاحال کسی گرفتاری کی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔
واشنگٹن، ڈی سی میں نیشنل پارک، نیو یارک سٹی، بوسٹن اور دیگر مقامات پر ہزاروں افراد مظاہروں کے لیے جمع ہوئے۔
بشمول متعدد ریاستی دارالحکومتوں، مڈ ٹاؤن مین ہٹن سے اینکریج، الاسکا تک ملک کے مختلف شہروں میں ہزاروں مظاہرین نے ٹرمپ اور ارب پتی ٹیسلا سی ای او ایلون مسک کے خلاف مظاہرے کیے۔
ان کا یہ مظاہرہ ملازمت سے نکالنے، معیشت، امیگریشن اور انسانی حقوق کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات کے خلاف تھا۔
ویسٹ کوسٹ میں سیٹل میں سپیس نیڈل کے سامنے مظاہرین نے ’محدود افراد کی حکومت (oligarchy)‘ کے خلاف نعرے لگائے۔
پورٹ لینڈ، اوریگون اور لاس اینجلس میں سڑکوں پر مظاہرین نے نعرے لگائے، جہاں انہوں نے پرشنگ سکوائر سے سٹی ہال تک مارچ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مظاہرین نے انتظامیہ کے ہزاروں وفاقی کارکنوں کو برطرف کرنے، سوشل سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن کے فیلڈ دفاتر، ایجنسیوں کو بند کرنے، تارکین وطن کو ملک بدر کرنے، ٹرانس جینڈر لوگوں کے لیے تحفظات کو کم کرنے اور صحت کے پروگراموں کے لیے فنڈز میں کٹوتی جیسے اقدام پر غصے کا اظہار کیا۔
مسک، ٹرمپ کے مشیر جو ٹیسلا، اسپیس ایکس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس چلاتے ہیں، نے حکومتی کارکردگی کے نئے بنائے گئے محکمے کے سربراہ کے طور پر ملازمتیں کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالر بچا رہے ہیں۔
مظاہروں کے بارے میں پوچھے جانے پر، وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا کہ ’صدر ٹرمپ کا موقف واضح ہے: وہ ہمیشہ اہل افراد کے لیے سوشل سکیورٹی، میڈی کیئر، اور میڈیک ایڈ کا تحفظ کریں گے۔ جبکہ ڈیموکریٹس کا موقف غیر قانونی غیر ملکیوں کو سوشل سکیورٹی، میڈیک ایڈ اور میڈی کیئر فوائد دینا ہے، جو ان پروگراموں کو دیوالیہ کر دے گا اور امریکی بزرگوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔‘
ہیومن رائٹس کمپین ایڈوکیسی گروپ کی صدر کیلی رابنسن نے کہا کہ ’ہم یہ امریکہ نہیں چاہتے۔ ہم وہ امریکہ چاہتے ہیں جس کے ہم حقدار ہیں، جہاں وقار، حفاظت اور آزادی ہم میں سے چند کی نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہے۔‘
بوسٹن میں، مظاہرین نے ’ہماری جمہوریت کو ہاتھ نہ لگاؤ‘ اور ’ہماری سوشل سکیورٹی کو نہ چھیڑو‘ جیسے پیغامات والے پوسٹرز اٹھائے۔
بوسٹن میئر مشیل وو نے کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کے بچے اور دوسرے ایسی دنیا میں رہیں جہاں دھمکیاں حکومتی ہتھکنڈے ہوں اور تنوع اور مساوات جیسی اقدار پر حملہ ہو رہا ہو۔
وو نے کہا، ’میں یہ قبول کرنے سے انکار کرتی ہوں کہ وہ ایک ایسی دنیا میں پروان چڑھیں جہاں تارکین وطن جیسے ان کی دادی اور دادا خود بخود ہی مجرم سمجھے جاتے ہیں۔‘
سینکڑوں افراد نے فلوریڈا کے پام بیچ گارڈنز میں بھی مظاہرہ کیا جو جیوپیٹر میں ٹرمپ کے گولف کورس سے چند میل دور ہے۔
مظاہرے میں شریک لوگ پی جی اے ڈرائیو کے دونوں اطراف قطار میں کھڑے، کاروں کو ہارن بجانے اور ٹرمپ کے خلاف نعرے لگانے کی ترغیب دیتے رہے۔
ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کارکنوں نے متعدد بار ٹرمپ اور مسک کے خلاف ملک گیر مظاہرے کیے ہیں تاہم یہ اب تک کے شروع ہونے والے مظاہروں میں سے بڑے پیمانے کا عوامی ردعمل دکھائی دیتا ہے۔