-
1/21
واٹر ایڈ نامی تنظیم نے دنیا کے مختلف حصوں میں خواتین سے ان تمام مسائل کے بارے میں بات کی جو دوران حیض انہیں لاحق رہتے ہیں۔ اس مہم کے دوران اس تنظیم نے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے سنیٹری پیڈز کے متبادلات کی تصویر کشی بھی کی۔ حیض میں صفائی کا خیال رکھنے کے لیے جہاں بعض طریقے کافی نئے اور صحت کے لیے فائدہ مند پائے گئے، وہیں کافی چیزیں ایسی بھی تھیں جن کا استعمال ان مخصوص ایام میں شدید حیرت انگیز تھا۔
-
2/21
زیمبیا کی 45 سالہ نووانا ،گائے کے گوبر کو سکھا کر اور اسے پاؤڈر کی شکل میں چھان کر کپڑے کی تھیلیوں میں ڈالتی ہیں۔ حیض کے دوران وہ ان تھیلیوں کو بطور جاذب استعمال کرتی ہیں۔ اس دوران پرانے کمبلوں کے ٹکڑے بھی ان کے مددگار ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ ان کی نانی نے انہیں سکھایا تھا۔ سینیٹری پیڈز خریدنا ان کے لیے اپنی محدود آمدنی میں ہرگز ممکن نہیں ہے۔
-
3/21
نووانا اس تھیلی کو استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر ان کے پاس رقم ہو تو وہ یقینا سینیٹری پیڈز خریدنا پسند کریں گی، کیونکہ انہیں استعمال کرنا آسان اور صحت بخش ہوتا ہے۔
-
4/21
لندن کی 27 سالہ ہیلری ایسے سینیٹری پیڈز خریدتی ہیں جو دھو کر دوبارہ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ چند بھارتی خواتین انہیں کپاس اور بانس کے ریشوں سے ایسے پیڈز بنا کر دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں یہ طریقہ قدرتی بھی ہے اور ماحول دوست بھی۔
-
5/21
ہیلری کو یہ پیڈز تقریبا 9 پاؤنڈ کے عوض خریدنا پڑتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے استعمال سے دھبوں کا اندیشہ بھی ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ہیلری 2 برس سے استعمال کر رہی ہیں۔
-
6/21
یوگنڈا کی 23 سالہ لیپرا جوائس بکری کی کھال سے بنا سکرٹ دکھا رہی ہیں۔ اس سکرٹ کے اندر ایک حصہ ایسا ہے جسے مقامی زبان میں 'ایب وہ' کہا جاتا ہے۔ وہ حصہ موٹی تہوں والا ہوتا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سکرٹ کی دُم جیسا ہوتا ہے۔ حیض کے دوران لیپرا اس دُم کو ٹانگوں میں لپیٹ کر کسی آرام دہ جگہ بیٹھ جاتی ہیں اور خون کے جذب ہونے کا انتظار کرتی ہیں۔
-
7/21
لیپرا بکری کی کھال سے بنا یہ سکرٹ اس لیے پہنتی ہیں کہ یہ اس علاقے میں پایا جانے والا صدیوں کا آزمودہ سینیٹری پیڈ ہے۔
-
8/21
آسٹریلیا کی 27 سالہ سٹیف آئی یو ڈی، ٹیمپون یا نارمل سینیٹری پیڈز کا ہی استعمال کرتی ہیں۔ وہ پولی سسٹک اووریز جیسے مسائل کا شکار بھی ہیں۔
-
9/21
سٹیف کو پولی سسٹک اووریز کی وجہ سے دوران حیض تکلیف اور کم خون کے اخراج کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں آئی یو ڈی کا استعمال سب سے زیادہ محفوظ لگتا ہے۔
-
10/21
یوگنڈا کی 44 سالہ میونس اپنے ماہانہ ایام کے دوران زمین میں ایک گڑھا کھود کر اس کے اوپر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ ان کے لیے بالکل نارمل ہے۔ ان کی والدہ نے انہیں مختلف طریقے سکھائے تھے لیکن یہ انہیں سب سے بہتر لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس طرح کوئی بھی آدمی ان کا خون نہیں دیکھ سکتا۔ وہ اسے اپنے شوہر سے بھی چھپانا چاہتی ہیں۔ وہ اس طریقے کو آرام دہ سمجھتی ہیں اور انہیں ایسی جگہ ڈھونڈنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی جہاں آس پاس کوئی مرد نہ ہو اور جو نسبتا سنسان ہو۔
-
11/21
نیپال کی 32 سالہ سنگیتا اپنے لیے کپڑے کا دوبارہ استعمال ہو سکنے والا سینیٹری پیڈ بناتی ہیں۔ بازار میں دستیاب پیڈز ان کی قوت خرید سے باہر ہیں۔
-
12/21
سنگیتا نے یہ پیڈز بنانے کے لیے باقاعدہ دو روزہ ٹریننگ ورکشاپ میں داخلہ لیا۔
-
13/21
زیمبیا کی 22 سالہ لمپو بھی گائے کا سوکھا ہوا گوبر ہی اس مقصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ برسات کے موسم میں گوبر سکھانا اور استعمال کرنا ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔
-
14/21
گوبر کا ایسا ٹکڑا کسی کپڑے میں لپیٹ کر خون کے انجذاب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لمپو اس طریقے کو پسند کرتی ہیں کیوں کہ گوبر میں خون جذب کرنے کی صلاحیت انہیں حیرت انگیز حد تک زیادہ لگتی ہے۔
-
15/21
مانچسٹر کی 40 سالہ کلئیر مینسچورل کپ کا استعمال کرتی ہیں۔ اسے مون کپ کہا جاتا ہے۔ وہ ہر بار اسے ابال کر استعمال کرتی ہیں تاکہ جراثیم ختم کیے جا سکیں۔ اس مقصد کے لیے کچن میں ایک الگ برتن انہوں نے رکھا ہوا ہے۔ کئی مرتبہ انہیں بھاگ کر کچن میں جانا پڑتا ہے کہ کوئی مہمان اس برتن میں انڈہ نہ ابال لے۔
-
16/21
انہیں مون کپ کا استعمال کافی مشکل لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں کچھ بھی کر لوں اپنے ہاتھ خون سے بچا نہیں سکتی۔
-
17/21
الزربتھ چیزل 54 برس کی ہیں۔ وہ ملاوی میں رہتی ہیں۔ تصویر میں وہ اپنی پوتی میرل کو پرانے سکرٹ سے پیڈ بنانا سکھا رہی ہیں۔ یہ پیڈ وہ زیر جامے کے اندر رکھ لیں گی۔ ملاوی میں غربت اتنی ہے کہ الزربتھ کے مطابق بعض خواتین زیر جامہ بھی نہیں خرید سکتیں۔ وہ ان پیڈز کو پرانے کپڑوں کے چیتھڑوں کا ازار بنا کر اٹکا لیتی ہیں۔ اسے نیاندا کہا جاتا ہے۔
-
18/21
ملاوی کی 23 سالہ تمالہ بھی پرانے کپڑوں کے پیڈ (نیاندا)استعمال کرتی ہیں۔ ان کے لیے انہیں دھو کر استعمال کرنا ایک پریشان کن مسئلہ ہوتا ہے۔
-
19/21
نیاندا کو پیروں سے مسل کر پانی کے ساتھ دھو کر صاف کیا جاتا ہے۔ پھر اسے مٹی کے بڑے برتن میں دھو کر سکھایا جاتا ہے۔ اسے دھونا اور سکھانا چھوٹے گھروں اور اندھیرے بیت الخلاؤں میں ایک الگ امتحان ہوتا ہے۔
-
20/21
زیمبیا کی 19 سالہ ڈورس ایام کے دوران خام کپاس کا استعمال کرتی ہیں۔ وہ کھیتوں میں جا کر کپاس کے پھول توڑتی ہیں اور اپنی والدہ کے پرانے کپڑے انہیں باندھنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
-
21/21
اسلام آباد کی 18 سالہ صبا اپنے پرانے کپڑوں کو لمبے ٹکڑوں کی شکل میں کاٹ کر ماہواری کے دوران استعمال کرتی ہیں۔