پاکستان کے قبائلی اضلاع جنوبی اور شمالی وزیرستان میں حالیہ دنوں فوجی قافلوں پر حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر اسلحے کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
مقامی بازاروں میں بارود کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی ایک بوری کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے اور اسلحہ خریدار صرف مقامی کاروباری لوگ نہیں بلکہ عام لوگ بھی ہیں۔
وانا میں ایک دکان دار علا الدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چھ مہینے پہلے جو کلاشنکوف 80 ہزار میں فروخت ہورہی تھی، اب اس کی قیمت ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح چھوٹی رینج کے راکٹ لانچر اور بارود کی قیمتوں میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کے خریدار بھی بڑھ گئے ہیں۔
علا الدین کے مطابق اسلحے کے خریدار پیسے نقد دیتے ہیں اور پھر اسلحہ دوسری جگہ منتقل کرنا ان کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ’اسلحے کے دو طرح کے کاروبار ہیں۔ ایک وہ فروخت کنندہ ہیں جو اسلحہ دکان کو بیچتے ہیں اور دوسرے عام گاہک ہیں جو ان سے رجوع کرتے ہیں۔ پہلے جس ریٹ پر اسلحہ خریدتے تھے اب وہ ریٹ نہیں لیکن گاہکوں میں اضافے سے آمدن بڑھی ہے۔‘
محمد عمر نامی شخص کے مطابق وزیرستان میں اسلحہ بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں اور یہاں ہر قسم کا اسلحہ بلوچستان سے آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ژوب سے لے کر وزیرستان تک سارے غیرآباد پہاڑی سلسلے ہیں جس کے ذریعے باآسانی اسلحہ وزیرستان پہنچتا ہے۔ ’ان دنوں بلوچستان سے اسلحہ لانے کا بہت بڑا کاروبار ہے، جس میں زیادہ تر بے روزگار نوجوان ملوث ہیں۔‘
انہوں نے دعوی ٰ کیا کہ اسلحہ لانے والے یہ نوجوان منشیات کے کاروبار میں بھی ملوث ہیں۔ ’منشیات نے علاقے میں تباہی مچا دی ہے اور پہلی مرتبہ وزیرستان میں ہیروین اور آئس کے عادی لوگ نظر آ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا یہاں اسلحے کا استعمال کم ہے اور لوگ زیادہ تر اسلحہ یہاں سے خرید کر افغانستان لے جاتے ہیں۔ وزیرستان کے قبائلی سردار اور ملک محمد امین کے مطابق فوجی آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے بھاری اور چھوٹے ہتھیار قبضے میں لے لیے تھے یا پھر لوگوں نے خوف کی وجہ سے خود آرزاں قیمت پر فروخت کر دیے لیکن اب علاقے میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کی وجہ سے لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے بھاری قیمت پر ہتھیارخریدنا شروع کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اپنے حفاظت کی فکر ہے، جس کی وجہ سے چھوٹے موٹے اسلحے کی قیمتوں میں تیزی آئی ہے، اس طرح کا اسلحہ دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا ڈاکٹر ثنا اللہ عباسی نے چند دن پہلے بنوں یونیورسٹی میں لیکچر کے دوران کہا تھا کہ قبائلی اضلاع میں اسلحہ اور بارود برآمد ہو رہے ہیں اور پولیس نے اب تک 115 کلاشنکوفیں، چھ برین گنز، 214 پستول، 76 رائفلز، پانچ شارٹ گنز، 72 راکٹ لانچرز، 11 ہینڈ گرنیڈ، 317 ڈائنامائٹس، 23 ڈیٹونیٹرز اور 12455 مختلف بور کے کارتوس قبضے میں لیے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی لیڈر ملک محمد انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس نے اپنی حفاظت کے لیے تھانوں کے چاروں طرف خاردار تار لگائی ہے لیکن عوام کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ’لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے چھوٹا موٹا اسلحہ خریدا ہے اسے بھی پولیس چھاپوں کے دوران لے جاتی ہے۔‘
انہوں نے زور دیا کہ حکومت پہلے شہریوں کو تحفظ دے، لوگ خود اسلحہ تھانے میں جمع کرا دیں گے۔ ’اسلحہ رکھنے یا نہ رکھنے کی اب تک کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی، حکومت کو چاہیے کہ قبائلوں سے قبضے میں لیے جانے والے اسلحے کی قیمت ادا کرے۔‘
مبصرین کے خیال میں حالیہ دنوں میں اسلحے کے دو طرح کے خریدار ہیں ایک وہ جو اپنی حفاظت چاہتے ہیں اور دوسرے کاروباری لوگ جو اسلحہ آگے بیچتے ہیں جس کی وجہ سے شدت پسندی بڑھنے کا احتمال رہتا ہے۔