پاکستان کے قبائلی اضلاع میں انضمام کے بعد تاریخ میں پہلی بار خواتین اپنے حقوق کے لیے عدالتوں سے رجوع کر رہی ہیں، ان کے زیادہ تر مسائل کا تعلق خُلع اور جائیداد ہے۔
قبائلی علاقوں میں دہائیوں سے ایف سی آر قوانین کی موجودگی میں خواتین کے حقوق کے راستے بند پڑے تھے اور ان کے حقوق کی آواز اُٹھانے کے لیے کہیں بھی کوئی فورم نہیں تھا۔ انضمام کے بعد ایف سی آر کا خُوف ختم ہوا اور اب خواتین بھی اپنی حقوق کے لیے میدان میں آ گئی ہیں۔ گذشتہ دو سالوں میں قبائلی اضلاع میں 150 سے زیادہ خواتین نے مختلف نوعیت کے مقدمات کیے ہیں۔
قبائلی اضلاع میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کوئی خاتون گھر والوں کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے یا اپنے خاوند کے خلاف کوئی بات کر سکے۔ ایف سی آر دور کے دوران سینکڑوں ایسے واقعات موجود ہیں کہ کسی عورت کا خاوند دوسری شادی کرلیتا اور پہلی بیوی کو والدین کے گھر بھیج دیا جاتا، ایسے میں شوہر طلاق دینے کے لیے تیار تھے اور نہ ان کو اپنے گھر میں آنے کی اجازت دیتے تھے، اس طرح وہ بچاری ایک اذیت کی زندگی گزار دیتی تھی۔
کُرم سے تعلق رکھنے والے محمد علی طوری ایڈوکیٹ نے انڈپینڈنٹ اُردو کو بتایا کہ کُرم میں خُلع کے 30 سے زیادہ مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں، ان خواتین کو شوہروں نے ایف سی آر دور کے دوران طلاق دیے بغیر گھروں سے نکال دیا تھا اور وہ اپنے والدین کے پاس زندگیاں گزار رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا ایف سی آر قوانین میں کوئی ایسی شق نہیں تھی کہ بیوی شوہر کے خلاف کوئی مقدمہ کر لے یا جرگے کے ذریعے شوہر سے خُلع لے لے۔ انہوں نے بتایا کہ بیسوں خواتین خُلع کے انتظار میں والدین کے ہاں اس دُنیا سے بھی چلی گئیں۔
علی طوری کے مطابق اب انضمام کے بعد سالوں سے والدین کے گھروں میں زندگیاں گزارنے والی خواتین نے اپنے شوہروں کے خلاف مقدمات درج کروا دیے ہیں اور خود ان کے پاس خُلع کے آٹھ کیسز ہیں جن میں سے چھ کیسز کا فیصلہ خواتین کے حق میں ہوا ہے۔
مہمند کے رشید ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ مہمند میں 70 سے زیادہ فیمل کیسز عدالتوں میں چل رہے ہیں، ان کے پاس دو کیس ہیں جن میں ایک خُلع اور دوسرا دو بہنیوں اور بھائی کے درمیان جائیداد کے تنازعے کا ہے۔
ایف سی آر پر ریسرچ کرنے والے ذوالفقار علی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ ایف سی آر میں خواتین کے طلاق یا خُلع کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں تھی اور شق نمبر 29 میں صرف یہ تھا کہ اگر کسی خاتون نے کسی پر زنا کا الزام لگایا تو وہ پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر میں درخواست دے سکتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ خواتین کے حوالے سے کوئی ذکر نہیں تھا اور کھبی کھبار قبائلی جرگوں میں خواتین کے کیسز کے حوالے سے فیصلے ہوتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ قبائلی روایات میں رشتہ داروں کے مابین اس بات کو بے غیرتی تصور کیا جاتا ہے کہ کسی نے بیوی کو طلاق دی ہیں، مگر وہ اس بات پر شرم محسوس نہیں کرتے کہ ان کی بیوی اپنے والدین پر بوجھ بن گئی ہے۔
قبائلی اضلاع میں تعلیم و تربیت پر کام کرنے والے پشاور انجنینیئرنگ یونیورسٹی کے لیکچرار نور محمد نے بتایا کہ بنیادی مسئلہ قبائلی سوچ میں ہے جہاں خواتین کو مرد کے برابر نہیں سمجھا جاتا، خواتین کو بنیادی حقوق انسانی جیسے تعلیم، جائیداد، پسند کی شادی کا حق حاصل نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب خواتین کی عدالتوں اور پولیس تک رسائی ہے اور وہ مقدمہ درج کروا سکتی ہیں ۔ ’قبائلی اضلاع میں اب بھی کوئی لڑکی اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی، اگر لڑکی اپنی پسند کی شادی کی بات کرے تو اس کے نصیب میں موت ہوتی ہے۔‘