صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع جنوبی و شمالی وزیرستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ میں علاقے کے نوجوانان، قبائلی عمائدین اور خود طالبان شدت پسند بھی نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن رہے ہیں اور گذشتہ ایک ہفتے میں 10 افراد مارے گئے ہیں۔
پیر کو شمالی وزیرستان کے سب ڈویژن میرعلی میں چار قبائلی عمائدین کو نامعلوم افراد نے اس وقت فائرنگ کرکے ہلاک کردیا جب وہ ایک گاڑی میں میرعلی بازار سے اپنے گاؤں خیسورہ جارہے تھے۔ ضلعی پولیس آفسر شفیع اللہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ملک صاحب خان، ملک رضا خان، ملک ملک عمر خان اور ملک نور رحمان شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چاروں سرکردہ ملکانان تھے اور شمالی وزیرستان میں آمن آمان اور دوسرے معاملات میں جرگوں میں شامل ہوتے تھے۔ اہلکار کے مطابق نامعلوم افراد ایک نان کسٹمز پیڈ گاڑی میں فرار ہوگئے تھے اور پولیس نے علاقے میں سرچ آپریشن بھی کیا مگر کسی قسم کی گرفتاری عمل نہیں آئی ہے۔
اس واقعے سے تین دن پہلے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایف ڈبلیو آو میں کام کرنے والے چار آفراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں ایک مقامی اور تین غیر مقامی بتائے جاتے تھےجو نسپاک کمپنی کے ساتھ منسلک تھے۔
ضلعی پولیس آفسر شفیع اللہ گنڈا پور نے بتایا تھا کہ ایف ڈبلیو آو کے چار اہلکار ایک گاڑی میں میرعلی سے بنوں جارہے تھے کہ میرعلی بازار کے قریب نامعلوم افراد نے گاڑی کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں چاروں افراد ہلاک ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک مقامی ڈرائیور تھا جبکہ دوسرے تین افراد غیر مقامی بتائے جاتے ہیں۔
ڈی پی او شفیع اللہ کے مطابق غیر مقامی افراد میں احمد سعید کا تعلق پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ سے تھا، سید ظفر علی شاہ کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے اور محمد یوسف کا تعلق ایبٹ آباد سے بتایا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دو دن پہلے شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل کے علاقے دیگان میں ایک شادی کی تقریب سے واپسی کے دوران عبدالقدوس نامی نوجوان کو بھی گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک علاقے کے لوگوں نے دھرنا دیا ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس کے علاوہ ادھر جنوبی وزیرستان میں نامعلوم افراد نے مُلا نذیر گروپ کے ایک کمانڈر عبدل خان المعروف لاڑم کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ پولیس کے مطابق لاڑم ’گڈ طالبان‘ کا حصہ تھے اور ایک گاڑی میں وانا بازار سے گھر جارہے تھے کہ وانا بائی پاس پر نشانہ بنے۔
شمالی و جنوبی وزیرستان میں گذشتہ سولہ سالوں سے جو حالات گزرے ہیں ان میں لوگوں نے نہ صرف فوجی آپریشنوں، توپوں، میزائلوں اور بمباریوں کا سامنا کیا ہے بلکہ اپنوں اور پرائیوں کی ذبح شدہ اور مسخ شدہ لاشوں کو بھی اٹھایا ہے۔
شدت پسندوں کے خلاف جنگ کے دوران اکثر اوقات شہری اغوا ہوتے تھے اور تین چار دن بعد ان کی مسخ شدہ لاش کہیں سے ملتی تھی جن کو جاسوس کا نام دیا جاتا تھا۔ مگر اب اس کی جگہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے عام شہری نشانہ بن رہے ہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ کس گناہ میں نشانہ بن رہے ہیں۔ علاقے میں ایک افراتفری کا ماحول بن چکا ہے۔
مقامی انتظامیہ اور پولیس انتہائی کمزور پوزیشن میں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں کہ اختیارات کس کے پاس ہیں۔ موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے دونوں محکموں کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ایک طرف غیر تربیت یافتہ خاصہ دار فورس کو پولیس کی وردی پہنائی گئی اور دوسری طرف مقامی انتظامیہ کے وہ اختیارات چلے گئے جو ایف سی آر میں ان کو حاصل تھے۔
واضح رہے کہ لوگ حکومت کی طرف سے نامعلوم افراد کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کے انتظار میں ہیں اور غربت کی وجہ سے دوسرے علاقوں کو نقل مکانی بھی نہیں کرسکتے نہیں تو اب تک علاقہ خالی ہو جاتا۔
فاٹا سیکٹریٹ کے مطابق ضرب عضب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حکومت کے حمایتی ہونے یا جاسوسی کے الزام میں 1150 مشران یعنی ملکانان نامعلوم افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہوگئے چکے تھے۔