امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ترک ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ امریکی پابندیوں کا مقصد ترکی کی دفاعی صلاحیتیوں کو کمزور کرنا نہیں ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان کیل براؤن کے مطابق رواں ہفتے ترک وزیر خارجہ مولود چاوشوغلو سے گفتگو میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 'اس بات پر زور دیا کہ ترکی پر پابندیوں کا مقصد روس کو بڑی آمدن، رسائی اور اثرورسوخ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔'
کیل براؤن کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’ترکی پر ایس 400 دفاعی نظام خریدنے کے نتیجے میں عائد کی جانے والی پابندیوں کا مقصد ترکی یا کسی اور امریکی اتحادی کی جنگی تیاری اور دفاعی صلاحیتیوں کو کمزور کرنا نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مائیک پومپیو نے ترکی پر زور دیا کہ ’ایس 400 کا معاملہ دہائیوں سے دفاعی شعبے میں جاری تعاون کے مطابق حل کیا جائے اور ترکی نیٹو کے ہتھیاروں کو خریدنے کے اپنے فریضے کی تجدید کرے۔‘
خیال رہے کہ سوموار کو واشنگٹن کی جانب سے ترکی پر روسی دفاعی نظام خریدنے کے نتیجے میں ’سزا‘ کے طور پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تھیں۔ یاد رہے ترکی اور امریکہ نیٹو کے اتحادی ممالک ہیں۔
ان پابندیوں میں ترکی کی فوجی سازو سامان خریدنے والے ادارے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس ایجنسی پر امریکی برآمدات خریدنے اور قرض کی سہولت حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جبکہ ادارے کے سربراہ کو امریکہ کا سفر کرنے اور وہاں اثاثے رکھنے کی اجازت نہ دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جبکہ ترکی نے ان پابندیوں کے بعد واضح طور کہا تھا کہ امریکی پابندیوں کے باوجود وہ روس سے دفاعی ایس 400 میزائل سسٹم خریدنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
جمعرات کو ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوشوغلو نے ترک ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ترکی پابندیوں کے خلاف جوابی پابندیاں بھی عائد کرے گا اور ابھی ان کے حوالے سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ترکی پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ سیاسی اور قانونی طور پر غلط ہے اور یہ ترکی کی خودمختاری پر حملہ ہے۔‘
مولود چاوشوغلو کا مزید کہنا تھا کہ ایسے اقدامات سے انقرہ کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کو امریکی فیصلے کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے انقرہ میں کی جانے والی ایک تقریر میں اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کس قسم کا اتحاد ہے؟ یہ فیصلہ ہماری خود مختاری پر ایک حملہ ہے۔‘