کابل کی جانب سے ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
ایک روز قبل افغان وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر پاکستان کا دورہ کرنے والے طالبان امن وفد کے سربراہ ملا عبد الغنی برادر کی طالبان گروپ کے دیگر رہمناؤں سے ملاقات کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں افغان طالبان رہنماؤں کی موجودگی افغانستان کے امن عمل کے لیے ایک چیلنج ہے۔
کابل سے آنے والے اس بیان کے بعد پاکستان کی وزارت خارجہ نے اتوار کو اپنے ردعمل میں کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کاوشوں کے باوجود اس طرح کے منفی تبصرے تشویش کا باعث ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے بیان میں کہا گیا: ’یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ افغان امن عمل تنازع کے سیاسی حل کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس سلسلے میں افغان معاشرے اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف اور اس کی تعریف کی جارہی ہے لیکن ہمیں کچھ منفی تبصروں کے بارے میں تشویش ہے جو بعض سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری حلقوں کی طرف سے کیے جا رہے ہیں۔‘
’ہم باہمی اتفاق رائے کے بنیادی اصول پر زور دیتے رہیں گے اور یہ کہ سکیورٹی اور انٹلیجنس سمیت تمام باہمی امور کو متعلقہ دوطرفہ فورمز اور چینلز کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔‘
’اے پی پی اے پی ایس ورکنگ گروپس کی طرح تحفظات پر گفتگو کے لیے مناسب ادارہ جاتی فورم موجود ہیں۔ اس کے علاوہ نومبر 2020 میں وزیر اعظم پاکستان کے دورہ کابل کے دوران دونوں فریقین نے سلامتی اور امن عمل سے متعلق امور پر اپنے رابطوں کو مزید مستحکم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں مزید کہا گیا: ’ہم اس بات کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کہ عوامی سطح پر الزام تراشی کا کھیل امن عمل کے ساتھ ساتھ باہمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے ہماری مشترکہ کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‘
’پاکستان ایک پرامن، مستحکم، متحد، آزاد، جمہوری، خودمختار اور خوشحال افغانستان دیکھنا چاہتا ہے اور اسلام آباد اس کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔ ‘
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے ملا برادر کی قیادت میں طالبان کے اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا اور وزیراعظم عمران خان سمیت پاکستانی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں کی تھیں۔
ویڈیو میں طالبان رہنما ایک ہجوم کو یہ کہتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ پاکستان میں موجود طالبان رہنماؤں سے مشاورت سے امن عمل کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
ویڈیو کے ردعمل میں افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستانی سرزمین میں شدت پسند عناصر اور ان کے رہنماؤں کی موجودگی واضح طور پر افغانستان کی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے اور خطے میں بحران اور عدم استحکام کا باعث ہے۔ یہ افغانستان میں پائیدار امن کے حصول کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔‘
جب 16 دسمبر کو طالبان ارکان پاکستان پہنچے تو وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا یہ دورہ کابل حکومت کی مشاورت سے ہو رہا ہے تاہم ویڈیو کےمنظر عام پر آنے کے بعد افغان وزارت نے کہا کہ اس دورے کے آغاز سے افغانستان میں خونریزی کو روکنے اور پائیدار امن لانے کے لیے عملی اقدامات کے حوالے سے امیدوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن اس فوٹیج سے پاکستانی سرزمین پر مطلوب طالبان رہنماؤں کی موجودگی کے انکشاف نے صورت حال تبدیل کر دی ہے۔