اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو معروف وکیل اور پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ نعیم بخاری کو پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کے چیئرمین کی حیثیت سے کام سے روکتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج دیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے آج نعیم بخاری کی تعیناتی کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران واضح کیا کہ عدالت انہیں عہدے سے ہٹا نہیں رہی بلکہ انہیں کام سے روکتے ہوئے معاملہ وفاقی کابینہ کو دوبارہ غور کے لیے بھیج رہی ہے۔ وفاقی کابینہ سے منظوری کی صورت میں نعیم بخاری چیئرمین پی ٹی وی کی حیثیت سے کام جاری رکھ سکتے ہیں۔
عدالت نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے عطا الحق قاسمی کیس میں مقرر کیے گئے معیارات پر عمل کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عطاالحق قاسمی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی وی کی تقرری کے سلسلے میں امیدوار کو زیادہ سے زیادہ عمر کی حد میں نرمی دینے کی وجہ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
عدالت نے کہا کہ وفاقی وزارت اطلاعات نے نعیم بخاری کی تقرری میں وہی غلطی دہرائی جو عطاالحق قاسمی کی تعیناتی کے وقت کی گئی۔ عدالت نے درخواست کی گذشتہ سماعت پر خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نعیم بخاری کی تعیناتی کرتے وقت سپریم کورٹ کی گائیڈ لائینز کا خیال نہیں رکھا گیا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 2018 میں عطا الحق قاسمی کی بطور چیئرمین پی ٹی وی تعیناتی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس عہدے پر 65 سال سے زائد عمر امیدوار کی تقرری سے قبل عمر کی حد میں نرمی کی واضح وجوہات کا موجود ہونا ضروری قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ آف نے وفاقی حکومت کو یہ ہدایت بھی کی تھی کہ ہر تقری قانون کے دائرے کے اندر رہ کر کرنا چاہیے۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ منتخب نمائندے عوام کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کا کام ہر صورت قانون اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے نہ کہ ان کے ذاتی مفادات اور پسند و ناپسند۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر وزارت اطلاعات کا نمائندہ آج عدالت میں پیش ہوا جسے مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت کی طرف سے وفاقی کابینہ کو واضح سمری نہیں بھیجی گئی اور کابینہ نے امیدوار کی عمر کی حد میں نرمی سے متعلق کوئی واضح فیصلہ نہیں لیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ حکومت نے عمر کی حد میں نرمی کی؟ جس پر وزارت اطلاعات نے جواب دیا کہ جی عمر کی حد میں نرمی کی گئی تھی۔ نمائندہ وزارت اطلاعات نے بتایا کہ ایک سمری 13 اور دوسری 26 نومبر کو وفاقی کابینہ کو بھیجی گئی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ نے خود ہی نعیم بخاری کا چیئرمین پی ٹی وی تقرر کر کے سمری کابینہ کو بھجوا دی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات اس تقرری کی مجاز نہیں، یہ صرف وفاقی کابینہ ہی کر سکتی ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ وزارت نے سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں پڑھا جس میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا چیئرمین پی ٹی وی تنخواہ لیں یا نہ لیں وہ الگ بات ہے، طریقہ کار کے بارے میں بتائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزارت اطلاعات کے نمائندے نے بتایا کہ ’ہم نے اپنی سمری میں لکھا ہے کہ نعیم بخاری اس عہدے کے قابل ہیں اور ان کا کافی تجربہ بھی رکھتے ہیں۔‘ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عمر کی حد میں نرمی کے لیے آپ نے وجہ کیا لکھی ہے؟
عدالت نے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کسی کو چیئرمین نہیں بنا سکتی، آپ فیصلہ پڑھے بغیر سمری کابینہ کو بھیج کر کابینہ کو بھی شرمندہ کریں گے، آپ نے سمری بھیجتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پورشن نہیں پڑھا تھا، نہ کابینہ نے واضح طور پر عمر کی حد میں نرمی کا کوئی فیصلہ کیا اور نہ ہی آپ نے صحیح سمری بھیجی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نعیم بخاری ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن کوئی قانون سے بالاتر نہیں، ہم یہ معاملہ وفاقی کابینہ کو بھیج رہے ہیں، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے دیکھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت عمومی طور پر ایگزیکیٹو کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی، عدالت اس تعیناتی کو کالعدم نہیں کر رہی، تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں تاکہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نعیم بخاری کو کام سے روکتے ہوئے ان کی تعیناتی کے خلاف درخواست کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔