پچہتر سالہ آنگ سان سوچی نے میانمار میں 2015 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک میں 50 سال بعد سول حکومت قائم کی۔
آنگ سان سوچی، تحریک آزادی کے رہنما آنگ سان کی صاحبزادی ہیں۔ ان کے والد کو اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب سوچی کی عمر دو سال تھی۔ انہوں نے اپنی جوانی کا بڑا حصہ سمندر پار گزارا۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ان کی ملاقات برطانوی ماہر تعلیم مائیکل ایرس سے ہوئی جنہوں نے ان کے ساتھ شادی کر لی۔ ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے اور انہوں نے آکسفورڈ میں رہائش اختیار کرلی۔
وہ 1988 میں میانمار واپس پہنچیں جو اس وقت ملک کا دارالحکومت تھا۔ ان کی آمد کا مقصد قریب المرگ والدہ کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ ملک میں قیام کے دوران سوچی طلبہ مظاہروں میں شریک ہونے لگیں جو 1962 میں حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے والی فوج کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
ممکن تھا کہ ایک اچھی مقرر سوچی تحریک کی قیادت سنبھالنے کے لیے امیدوار بنتیں، طلبہ کے مظاہروں کو کچل دیا گیا۔ ان کے قائدین کو قتل کر دیا گیا یا پھر وہ جیل میں ڈال دیے گئے۔ جلد ہی سوچی کو بھی ان کے جھیل کے قریب واقع خاندانی گھر میں نظر بند کر دیا گیا جہاں وہ 2010 تک رہیں۔
اس دوران وقفے وقفے سے ان کی نظربندی ختم بھی کی جاتی رہی۔ سوچی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریک کی قیادت کرنے کی خاطر میانمار میں قیام کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ فوج نے واضح کر دیا تھا کہ انہیں ملک چھوڑ دینا چاہیے تاہم انہیں خوف تھا کہ ملک سے جانے کی صورت میں انہیں واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔
سوچی کو 1991 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا جو ان کے بڑے بھائی الیگزینڈر نے ان کی طرف سے وصول کیا تھا۔ اگست 2011 میں سوچی نے ان کی اس وقت ملک کے صدرتھین سین سے پہلی ملاقات کی۔ وہ سابق فوجی جنرل اور ملک کی نیم سول انتظامیہ کے سربراہ تھے۔
اس طرح ان کے ملک کے سابق فوجی حکمرانوں کے ساتھ رابطوں کا عملی طور پر آغاز ہوا۔ وہ 2015 میں خانہ جنگی ختم کرنے والے پلیٹ فارم سے اقتدار میں آئیں جس کے بعد انہوں نے ملک میں غیر سرمایہ کاری میں اضافہ اور سیاست میں فوج کے کردار کو کم کیا۔
سوچی نے مغربی اتحادیوں کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ملک میں روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے مسئلے پر توجہ دیں گی۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں مشاورتی کمیشن قائم کیا جائے گا۔
کوفی عنان کی طرف سے اگست 2017 میں رپورٹ جاری کی گئی جس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی سفارش کی گئی تھی۔ اس کے ایک دن بعد روہنگیا عسکریت پسندوں نے ریاست رخائن میں سکیورٹی فورسز پر حملہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جواب میں فوج نے مہم شروع کر دی جس میں سینکڑوں روہنگیا دیہات کو جلا دیا گیا اور روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے اس کارروائی کو ’نسلی بنیادوں پر قتل عام کی نصابی کتابوں میں موجود مثال‘ قرار دیا۔ سوچی نے ’دہشت گردوں‘ پر الزام لگایا کہ وہ بحران کے بارے میں بڑے پیمانے پر غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج قانون کی عمل داری کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔
ستمبر 2017 میں سوچی قوم سے خطاب کے دوران روہنگیا انخلا کے حوالے سے تذبذب کا شکار دکھائی دیں۔
انہوں نے پناہ گزینوں کے حوالے سے کہا کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ وہ علاقے کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ وہ 2019 میں ہیگ گئیں جہاں انہوں نے میانمار پر لگائے گئے نسل کشی کے الزامات کا عالمی عدالت انصاف میں سامنا کیا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ ایسا ممکن ہے کہ میانمار میں جنگی جرائم کیے گئے ہوں لیکن انہوں نے فوجی کارروائی کو دہشت گردوں کے خلاف قانون کے مطابق کیا جانے والا آپریشن قرار دیا۔
دوہزار بیس میں میانمار میں انتخابی عمل کی نگرانی والے پیپلز الائنس کے سروے میں سامنے آیا کہ ملک کے 79 فیصد شہریوں کو سوچی کی قیادت پر اعتماد ہے اور ایک سال پہلے کے مقابلے میں شہریوں کی جانب سے ان کے لیے ’محترم خاتون‘ کے طور پر محبت میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
نومبر 2020 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد سرکاری نتائج سے ظاہر ہوا کہ سوچی کی حکمران جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے اگلی حکومت کے قیام کے لیے کافی نشستیں حاصل کر لی ہیں۔
این ایل ڈی نے کہا کہ وہ قومی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔ انتخابی نتائج کے معاملے میں جھگڑوں جن میں فوج بھی شامل تھی، کے کئی ہفتے بعد یکم فروری کو علی الصبح چھاپہ مار کر سوچی، صدر ون مائنٹ اور حکمران جماعت کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کوحراست میں لے لیا گیا۔