اگر پاکستان کےسیاست دانوں کی زبانی پاکستان کی کشمیر پالیسی کا قصہ سنا جائے تو لگتا ہے کہ ہر حکومت نے کشمیریوں کےساتھ نا انصافی کی ہے۔
بھارت کو کشمیر پر جبرکرنے کے لیے حالات اور آسانی پیدا کی ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کے ساتھ وفا نہیں کی۔ یہ تو سب باتیں سیاسی جنگ کا شاخسانہ ہیں سیاسی داستان گوئی ہے۔ ان سب شکایات اور بیانات کی جنگ میں حقیقت تو بہت کم ہے۔
پاکستان کی سالہا سال سے کشمیر پالیسی کی حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پالیسی بنائی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ باہمی تعلقات کی بنیاد کشمیر کو رکھا ہے۔ یہ پالیسی بڑی واضح رہی ہے کہ اگر کشمیر کے حل کی طرف بھارت بڑھے گا اور کشمیریوں پر مظالم، بربریت اور فسطائیت کو ختم کرے گا تبھی دونوں ممالک کے تعلقات معمول کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
پچھلے سالوں کے مقابلوں میں اس سال حکومت نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی مناتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کچھ اہم قدم اٹھائے۔ ان اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ بھارت نے 5 اگست 2019 کو اپنے آئین کے مطابق جو جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت حاصل تھی اس کو ختم کر دیا تھا اور جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کے ایک حصے کا الحاق بھارت کی ریاست کے ساتھ کر دیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھارت پہلے ہی انحراف کیئے ہوئے ہے کشمیر کو جو خصوصی حیثیت دی ہوئی تھی اب اسے بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت جو بی جے پی کے منشور پہلے سے تھی کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا جائے گا وہ انہوں نے کر دیا۔
بھارت اپنے تئیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیے بھارت نے بہت گھناؤنے طریقے اپنائے ہیں جن میں خاص طور پر تین عنصر بہت ہی خطرناک ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت آبادی میں تبدیلی لے کر آ رہا ہے جو کشمیری نہیں ہیں ان کو بھارت کے ہر علاقے سے آنے کی اجازت ہے اور یہاں منتقل ہونے کی اجازت ہے۔ کشمیریت کو بڑے پیمانے پر ختم کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے قانون کے مطابق کشمیریوں کے علاوہ کوئی وہاں زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسے اب ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں اردو زبان کو ختم کیا جا رہا ہے اور تیسرا یہ کہ وہاں کی پوری بیوروکریسی میں غیر کشمیریوں کو لا کر اہم عہدوں پر تعینات کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بھارت کی کشمیریوں کے لیے پالیسی اس سے بھی قدرے بد تر ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے اپنائی ہوئی ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا بہت ضروری ہے ایک طرف بھارت کے ساتھ الحاق کر کے کشمیری سرزمین کی جو کشمیریت کے ساتھ نسبت ہے اس کو ختم کیا جا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ نئے قوانین نافذ کیے جاورہے ہیں کشمیریوں کے ساتھ بالکل وہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے جس طرح ایک زمانے میں W W Hunter نے ایک کتاب لکھی تھی۔ The Muslims of India ، 1857 کی جنگ آزادی کے بعد لکھی گئی اس کتاب میں کہا تھا کہ مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی شناخت کو ہرطریقے سے تباہ کر دیں تاکہ مسلمان اپنے آپ کو بے بس محسوس کریں۔ یہی پالیسی بھارت کشمیریوں کے ساتھ اپنا رہا ہے۔
وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ کشمیریوں کے خلاف بھارت نے فسطائیت اور مظالم کا سیلاب برپا کیا ہے اور ہٹلر جیسے طور طریقے اختیار کیے ہیں ان کو فوری روکنا پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
جہاں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی اداروں کو خط لکھے گئے ہیں کہ بھارت کے مظالم کو روکا جائے اور تحقیقات کی جائیں مبصرین کو بھی بھیجا جائے کہ جا کر دیکھیں بھارت کیا کر رہا ہے۔ وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن یہ اس فسطائیت کو روکنے کے لیے ناکافی ہے کیوں کہ بھارت اپنی روش پر زور و شور کے ساتھ قائم ہے۔
ظلم و ستم بھی برقرار ہے اور کشمیریوں کی شناخت کو بھی تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ تو یہ ہے آج کے کشمیریوں کی جدوجہد کی حقیقت۔ اس کا چیلنج پاکستان کو سوچنا ہے کہ کس طریقے سے یہ بھارت کی روش کو روک سکتا ہے۔
حال ہی میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ نے یہ رولنگ دی ہے کہ اسرائیل جو مغربی کنارے اور غزہ میں ظلم کر رہا ہے اس پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ تحقیقات کرسکتی ہے۔ یہ نہیں کہ اس کے نتیجے میں اسرائیل اپنی پالیسی تبدیل کر دے گا لیکن انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی اس رولنگ سے فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی جدوجہد اجاگر ہوتی ہے۔
پاکستان کو اب بین الاقوامی قانونی حربوں کو اور زیادہ توجہ سے دیکھنا ہوگا۔ ساتھ ساتھ اور بھی طریقوں پر نظر ڈالنی پڑے گی۔ کشمیری یقینا پاکستان سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور سچ یہ ہے کہ چاہے نواز شریف تھے، چاہے پرویز مشرف تھے، پیپلز پارٹی حکومت تھی یا چاہے عمران خان ہیں وہ ہر ایک سے امید لگائے ہوتے ہیں۔
اس امید کی پاکستان پر تاریخی، اخلاقی اور سیاسی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔