یکساں نصاب تعلیم بظاہر ایک مقبول تصور ہے لیکن اسے حکمت اور بصیرت کی بجائے سیاسی نعرے یا سیاسی ضرورت کی بنیاد پر اختیار کیا گیاتو ڈر ہے کہیں یہ ملک میں یکساں جہالت کے فروغ کا باعث نہ بن جائے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے
دو سوال بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ یکساں نصاب تعلیم کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت کی پالیسی کیا ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب پریشان کن ہے۔
جناب وزیر اعظم کا خیال ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام ملک میں طبقاتی تقسیم پیدا کر رہا ہے اور نصاب یکساں کر دینے سے یہ تقسیم ختم ہو جائے گی۔ یہ انداز فکر نرم سے نرم الفاظ میں سادگی کے سوا کچھ نہیں۔ ملک میں طبقاتی تقسیم کی وجہ نظام تعلیم سے زیادہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ وسائل کی اس تقسیم نے معاشرے کا یہ حال کر دیا ہے کہ دو کروڑ سے زائد بچے تو سکول جا ہی نہیں پا رہے۔ اس خوفناک معاشی پہلو کو مخاطب بنانے کی بجائے یکساں نصاب سے کیا خیر برآمد ہو سکے گی؟ گویا جس اصول سے استنباط کیا جا رہاہے وہ اصول ہی درست نہیں۔
طبقاتی تقسیم کا جزوی طور پر بے شک تعلیم سے بھی تعلق ہے لیکن وہاں بھی اصل چیز ماحول کا تفاوت ہے۔ نئے بندوبست میں آپ مدارس کو چند مزید کتابیں پڑھنے کے لیے پابند بھی کر دیں تب بھی سکول اور مدرسے کے ماحول کا یہ تفاوت برقرار رہے گا۔ ایک عام سکول اور ایچی سن میں بھی ماحول کا جو فرق ہے وہ چار کتابوں کی یکسانیت سے دور نہیں ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طریق کار اور پالیسی بھی غلطی ہائے مضامین کے سوا کچھ نہیں۔ اگلے روز جناب فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے یکساں نظام پر کی جزئیات واضح کرتے ہوئے کہا کہ تمام سکولوں، کالجوں اور مدارس کے لیے یکساں نظام تعلیم لا رہے ہیں۔ مدارس اور سکول کے تعلیمی ڈھانچے سے آگہی رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی قول زریں کے سوا کچھ نہیں تھا کیونکہ فنی اعتبار سے یہ ممکن ہی نہیں۔
نصاب تعلیم بچوں کا کھیل نہیں۔ اس کا تعلق قوم کی نسلوں سے ہوتا ہے۔ اس میں کسی بھی تبدیلی سے پہلے ایک وسیع تر مشاورت اور مسلسل غوروفکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک سہانی صبح پنجاب کابینہ اٹھے اور فیصلہ کر دے کہ اس سال سے یکساں نصاب تعلیم نافذ کیا جاتا ہے یا ایک شام سینیٹ سے اعلان ہو جائے کہ آج سے عربی زبان لازمی مضمون قرار دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نصاب میں تبدیلی مقصود ہے تو وہ علمی اور فکری مشق کہاں ہے؟
جناب شفقت محمود کا عالم یہ ہے کہ بہاولپور کے صادق پبلک سکول سے لے کر ہاورڈ یونیورسٹی تک ملک میں رائج عمومی نصاب سے ان کا واسطہ ہی نہیں پڑا۔ جناب عمران خان کا علمی سفر ایچی سن سے شروع ہو کر آکسفرڈ تک جاتا ہے اور بیچ میں کہیں روایتی نصاب کا کوئی پڑاؤ نہیں آتا۔ اب اچانک سے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں تو یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ فیصلہ سازی اور مشاورت میں کون سے رجال کار شریک ہیں اور ان کی فکری استعداد اور سماجی اور علمی نفسیات سے آگہی کا عالم کیا ہے۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ محترم رفیق طاہر صاحب کون ہیں اور علم و فکر کی دنیا میں ان کا مبلغ مقام کیا ہے کہ قومی نصاب کونسل کی سربراہی انہیں عطا کر دی گئی ہے؟
یہ بھی واضح نہیں کہ نصاب تعلیم کے یکساں ہونے کا مطلب کیا ہے۔ کیا تمام تعلیمی اداروں کو ایک نیا نصاب پکڑایا جائے گا یا مختلف اداروں سے کہا جائے گا کہ اپنا اپنا نصاب جاری رکھیے لیکن ان چند مشترکات کو بھی ساتھ شامل کر لیجیے۔ بعض اداروں میں بین الاقوامی ماہرین کا تیار کردہ نصاب پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ نصاب گویا طلبہ کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ دنیا کی دانش اجتماعی سے فیض یاب ہو سکیں۔ یکسانیت کے نعرے کی آڑ میں اگر طلبہ کو اس علمی ورثے سے محروم کیا جاتا ہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ماہرین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے تو یہ ایک المیہ ہو گا۔
ہمارے ہاں جو نصاب رائج ہے وہ بہت سے مقامات پر اپنے مرتبین کے فکری افلاس کو عیاں کرتا ہے۔ یہ البتہ ایک الگ موضوع ہے کہ ہمارے نصاب میں کیا کیا مسائل ہیں اور ان کی نوعیت کتنی سنگین ہے۔ اگر انہی ماہرین کے ہاتھوں ایک ’یکساں نصاب‘ مرتب ہونا ہے تو وہ صرف یکساں جہالت کے فروغ کا سبب بنے گا۔
آئین پاکستان میں جب حکومت کی ذمہ داری صرف 16 سال یعنی میٹرک تعلیم کی مفت فراہمی ہے تو حکومت اس سے آگے کے نصاب کی یکسانیت پر اصرار کیوں کر رہی ہے۔ حکومت کو زیادہ سے زیادہ یہ کرنا چاہیے کہ ایک حد تک کچھ مشترکات کو ہر ادارے میں پڑھانا یقینی بنا لے۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں، ان کے نصاب، ان کی استعداد اور ان کے فکری اور علمی ورثے اور مرتبے میں فرق رہنا ایک فطری امر ہے اور اسے غیر فطری طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پست درجے کے ادارے بہتر ہونے کی بجائے بہتر ادارے پستی کی طرف سفر شروع کر دیں گے۔
یہ ایک طویل کام ہے اور یہ انقلاب سے نہیں ارتقا سے ممکن ہے۔ ارتقا مگر وقت مانگتا ہے اور ہماری سیاسی ضروریات بہت جلد انقلاب برپا کر دینا چاہتی ہیں چنانچہ عجلت اور سطحیت کے اس امتزاج نے بہت سے ایسے اقدامات کو بھی بے روح کر دیا ہے جو اچھی نیت سے کیے گئے تھے۔
یکساں نصاب تعلیم کی بجائے حکومت کو ایک ”کم از کم“ معیار کو یقینی بنانے پر توجہ دینی چاہیے کہ اپنے بچوں کو ہم لازمی طور پر اس حد تک تعلیم سے آراستہ کریں گے۔ اس کے بعد کوئی حد نہیں ہوتی۔ اس کے بعد فضائیں آزاد ہوتی ہیں جو پرندہ جتنی استعداد اور ذوق رکھتا ہو اڑتا پھرے۔ ایک نصاب کا مطلب مگر یہ ہوگا کہ یہاں سے یہاں تک۔ اور مقامی ماہرین تعلیم کی فکری صلاحیتیں تو ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ سانحہ اس قوم پر بیت چکا۔ اس دور میں بھی ہمارا طالب علم ” ایڈیمز اور فریزز“ کے بے مقصد رٹے لگاتا اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کی لایعنی ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے پھرتا ہے جن کا عملی زندگی اورقومی تعمیر میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ دنیا اب ”World Englishes“ کی طرف بڑھ چکی اور TESOL کانفرنس کے بعد انداز فکر بدل گیاہے لیکن ہم ابھی تک انگریزی زبان کے لہجے کی دیوار گریہ پر سر رکھے آہ و بکا میں مصروف ہیں۔
اچھے تصورات بھی جب سیاسی ضروریات کی نذر ہوتے ہیں تو مسافت دائروں کا سفر بن جاتی ہے۔ اسلامی نظام اچھی چیز تھی مگر جب وہ ضیاء الحق کی سیاسی ضرورت بنی تو انجام ہمارے سامنے ہے۔ سوشلزم کے ساتھ یہی کچھ بھٹو کی سیاسی ضروریات نے کیا۔ احتساب اور کرپشن جیسے موضوعات عمران خان کے سیاسی ضروریات کا شکار ہو کر بے معنی ہوتے جا رہے ہیں۔
دعا ہے کہ نصاب بھی ایسی ہی کسی سیاسی ضرورت کی مشق ستم نہ بن جائے ورنہ یکساں نصاب یکساں جہالت کا استعارہ بن جائے گا۔