رمضان کی مبارک ساعتوں میں غزہ کا نوحہ

جنگ کے نئے مرحلے میں اسرائیل ایک مرتبہ پھر غزہ کے آبادیاتی تناسب اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنے حق میں کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔

25 مارچ 2025 کو اسرائیلی حملوں کے بعد شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیا سے انخلا کرتے خاندان (اے ایف پی)

گذشتہ سات دنوں سے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے جلو میں صہیونی ریاست نے تباہ حال اہلیانِ غزہ کے لیے بے دخلی کے نئے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ ان حملوں میں چھ سو سے زائد فلسطینی، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

قتل ہونے والوں میں نمایاں نام مزاحمتی تنظیم حماس کے پولٹ بیورو (سیاسی دفتر) کے سینیئر رہنما ڈاکٹر صلاح البردویل اور اسماعیل برہوم کے ہیں۔

صلاح البردویل کو سحری کے وقت سجدے کی حالت میں اور اسماعیل برہوم کو اسرائیلی فوج نے ہسپتال کے اندر تاک کر نشانہ بنایا، جہاں وہ غزہ جنگ کے پہلے مرحلے میں لگنے والے زخموں کے علاج کی خاطر داخل تھے۔

کسی زیر علاج مریض کو ہسپتال کے اندر اہدافی کارروائی کے ذریعے قتل کرنے کا بزدلانہ اسرائیلی اقدام مہذب دنیا کی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے، جس کی مثال معلوم جنگی تاریخ میں ملنا ناممکن ہے۔

سیز فائر کی یکطرفہ خلاف ورزی کے بعد سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے نئے اسرائیلی احکامات ایک انتہائی خون آشام رات کے بعد سامنے آئے، جس کے بعد اسرائیلی فوج غزہ کے رفح شہر اور خان یونس سمیت مختلف علاقوں میں فضائی حملوں کے ذریعے فلسطینیوں کو ایک مرتبہ پھر تہہ تیغ کرنے میں مصروف ہے۔

جبری بےدخلی کے نئے اسرائیلی احکامات کا مرکز رفح کے مغرب میں واقع تل السطان کالونی کا علاقہ بتایا جا رہا ہے۔ ظالمانہ بےدخلی پر عمل درآمد کے لیے دیے جانے والے احکامات میں اس مرتبہ ایک کڑی شق یہ شامل کی گئی ہے کہ اسرائیلی حکم نامے پر عمل درآمد کے لیے فلسطینی کسی گاڑی کا استعمال نہیں کر سکتے، انہیں پیدل ہی اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر چھوڑ کر محفوظ قرار دیے جانے المواسی زون کی سمت سفر کرنا ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

المواسی زون پہنچنے کے لیے صرف مقرر کردہ راستے پر ہی پیدل سفر کی اجازت ہو گی، بصورت دیگر خلاف ورزی کرنے والے بے خانماں فلسطینی شہری اسرائیلی فوجی کارروائی کا ’جائز ہدف‘ شمار ہوں گے۔

تل السلطان کالونی سے نام نہاد ’سیف زون‘ کا پیدل راستہ 45 منٹ کا ہے۔ بچے کھچے سامان کاندھوں پر اٹھائے فلسطینیوں کے لیے نئے اسرائیلی احکامات پر عمل درآمد انتہائی مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔ مبینہ طور پر محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی سمت سفر کرنے والے فلسطینیوں کی زندگیوں کی حفاظت کی ذمہ داری لینے سے اسرائیلی فوج صاف طور پر انکاری ہے۔ 

ماضی میں بھی فلسطینیوں کی محفوظ علاقوں کی جانب بےدخلی کے ایسے متعدد احکامات مبہم اور صریح دھوکہ ثابت ہوئے کیونکہ اسرائیلی فوج نے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے فلسطینیوں کو تر نوالہ سمجھ کر جارحیت کا نشانہ بنایا۔ کئی دنوں اور گھنٹوں کی مسافت طے کر کے ان سیف زونز میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو اپنے پیاروں کے لاشے اٹھانے کے سوا کسی قسم کی امان نہیں ملتی۔

فلسطینیوں کے غزہ سے بےدخلی کے منصوبے کی نئی تجویز اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے کابینہ کے سامنے پیش کی تھی، جس کا بظاہر مقصد اہلیانِ غزہ کو اجتماعی سزا دینا، ان کی نسل کشی اور نسلی تطہیر کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

بےدخلی منصوبے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز کی روشنی میں ’رضا کارانہ ہجرت‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اس لایعنی اقدام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اسرائیلی وزارت دفاع میں ایک خصوصی ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا ہے، جہاں سے صہیونی فوج ’رضا کارانہ ہجرت‘ کی نگرانی کرے گی۔

محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل نے ہر قسم کی اشیائے خور و نوش لانے کی پابندی لگا رکھی ہے۔ سرحدی ناکہ بندی کے بعد فلسطینیوں کی غزہ سے ’رضاکارانہ ہجرت‘ کے دعوؤں کی حقیقت اور اسرائیلی عزائم کو جاننا چنداں مشکل نہیں۔

تین ہفتوں سے جاری غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کا دل دہلا دینے والا انکشاف اسرائیلی سنگدلی واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ شمالی غزہ میں جنوری کے بعد سے دو برس سے کم عمر غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کی شرح 15.6 فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہو گئی ہے۔

یونیسف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے خبردار کیا ہے کہ جنگ کے دوران غزہ میں پیدا ہونے والے بحران کے دوران بچوں میں غذائیت کی کمی میں مبتلا ہونے کے ہولناک اور تباہ کن نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اسرائیل اس وقت فلسطینی بچوں کو غذائیت کی کمی کا شکار بنا کر اگلی نسلوں کو زندگی بھر کے لاعلاج روگ لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل جنگ کے آغاز سے ہی ایک پیج پر ہیں۔ بن یامین نتن یاہو کے اقتدار کی ڈوبتی ڈولتی کشتی بچانے کے ساتھ ساتھ سیز فائر کی خلاف ورزی اور بعد ازاں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل کے سامنے سپر ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔

حالیہ جنگ کے ذریعے اسرائیل ایک مرتبہ پھر غزہ کے آبادیاتی تناسب اور سیاسی مستقبل کا فیصلہ اپنے حق میں کرنے کی ناکام سی کوشش کر رہا ہے۔

غزہ میں 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری نسل کشی کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے میں ناکام ہے، تل ابیب میں موجود سیاسی قیادت کو خود بھی معلوم نہیں کہ سیز فائر کے یکطرفہ خاتمے کے بعد شروع کردہ نئی جنگ سے وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

اجتماعی سزا کی ظالمانہ پالیسی پر طویل عرصے سے عمل پیرا ہونے کے باوجود اسرائیل غزہ کے عوام کو حماس کے خلاف اکسانے میں ناکام ہے۔ اسی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کبھی مصر اور کبھی اردن کی جانب اجتماعی بے دخلی کی دھمکیوں سے ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

جنگ سے تباہ حال فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو بطورِ ہتھیار استعمال کر کے بھی اسرائیل کو خجالت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ غزہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جبری نقل مکانی کی راہ دکھا کر بھی اسرائیل اپنے مقاصد میں ناکام و نامراد دکھائی دیتا ہے۔

جنگ کے دوران صحت کے تمام مراکز، تعلیمی ادارے اور عالمی انجمنوں کے دفاتر کو اسرائیل نے اپنے نشانے پر لیے رکھا۔ یورپ اور امریکہ سے ملنے والی ہلاکت خیز جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اسرائیل 50 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو فنا کے گھاٹ اتار کر بھی اس طویل ترین جنگ کے اعلانیہ مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔

مغربی دنیا ایک طرف تو بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے بھاشن دیتے نہیں تھکتی، لیکن جب گذشتہ برس نومبر میں عالمی فوجداری عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع یوآو گیلانٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو دنیا کے سامنے نازی مظالم کا شور اٹھا کر ٹسوے بہانے والے ملک جرمنی نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ ’ریڈ وارنٹ کی پروا کیے بغیر اسرائیلی وزیراعظم کو سفری سہولت فراہم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائے گا۔‘

فرانس اور برطانیہ بھی گاہے گاہے جرمنی جیسی ’وفاداری‘ کا اظہار کر کے اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتے رہے ہیں۔

ایسے میں دنیا کی آزادی پسند باضمیر اقوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ نہتے شہریوں کو بھوکوں مار کر اسرائیلی جنگی مشین کے لیے آسان ہدف بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے؟

مغربی دنیا اسرائیلی جرائم کی شدت بیان کرتے ہوئے جس کم و کاست سے کام لیتی ہے، وہ صہیونی قتل عام میں ان کے شریک جرم ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہیں۔

اسرائیلی جنگ کے دوران حماس کا یہ اٹل موقف رہا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کے ذریعے ہی جنگ کا خاتمہ ممکن ہے۔ بالآخر طے پانے والے سیز فائر معاہدے کے پہلے مرحلے پر مشکلات کے باوجود عمل درآمد سے حماس کا نقطہ نظر درست ثابت ہوا۔

تاہم دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کے بجائے اسرائیل نے لیت ولعل سے کام لینا شروع کر دیا۔ اس کے بعد نتن یاہو کی حکومت خود ہی حماس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے سے پھر گئی۔ 

معاملات سدھارنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نمائندے ایڈم بوہلر کو دوحہ میں حماس سے براہ راست مذاکرات کے لیے بھیجا، لیکن امریکی ایلچی مذاکرات میں نتن یاہو کے موقف ہی کی وکالت کرتے دکھائی دیے۔

مذاکرات سے متعلق واشنگٹن اور تل ابیب سے آنے والے بیانات میں مکمل آہنگی دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ کیا چاہ رہے ہیں۔

مذاکرات میں ناکامی کے بعد شروع ہونے والے اسرائیلی قتل عام سے ایک بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ اسرائیل میں برسر اقتدار صہیونی مذہبی کیمپ اور وزیراعظم نتن یاہو کے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کتنی ناگزیر تھی۔ 

متعدد تجزیہ نگار اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نتن یاہو اور ان کے جنونی اتحادیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اسرائیلی رائے عامہ کو اب اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ فلسطینیوں کی اکثریت حماس کو ایک لازوال سوچ کی حامل تنظیم سمجھتی ہے۔ 

15 ماہ سے زائد عرصے تک اسرائیلی جنگی مشین سے برسائی جانے والی آتش و آہن کی بارش اپنے سروں پر برداشت کرنے والے فلسطینیوں کا عزم دیکھ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر تنظیم کی ساری قیادت بھی ختم ہو جائے یا غزہ کے تمام مکانات ملبے کا ڈھیر بنا کر غرب اردن میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں بھی ایسی قیامت بپا کر دی جائے، تب بھی فلسطینی عوام اسرائیلی خواہش کے مطابق حماس کے خلاف صف آرا نہیں ہوں گے۔

ساری صورت حال کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے والے اسرائیلیوں کو بھی اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ امریکہ میں نتن یاہو کے مسیحی اور صہیونی اتحادی اسرائیلی عوام کے مفادات کے علی الرغم اپنے ذاتی سیاسی عزائم کو بڑھاوا دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

دنیا بھر کے یہودیوں سے بھی یہی سوال کیا جانا چاہیے، جن کا نام استعمال کر کے صہیونی سوچ کے حامل امریکی اور اسرائیلی سیاسی کارپرداز ہولوکاسٹ کے بعد سے انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

غزہ پر دوبارہ بمباری سے یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ نتن یاہو اقتدار بچانے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔ فائر بندی معاہدے کی حالیہ خلاف ورزی محض اتفاق نہیں بلکہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں موجود کٹر یہودی ارکان کنیسٹ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔

ان انتہا پسند صہیونی سیاست دانوں نے اسرائیلی بجٹ سے پہلے اپنی ہم خیال کیمونٹی کو لازمی فوجی بھرتی سے مستثنیٰ قرار دلوانے کا مطالبہ کیا تھا، بصورت دیگر انہوں نے دھمکی دی تھی کہ وہ نتن یاہو حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے کسی بھی راست اقدام سے گریز نہیں کریں گے۔

نتن یاہو اینڈ کمپنی غزہ جنگ کو سپریم کورٹ میں اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات میں گواہی ملتوی کروانے کے لیے ایک ’ہنگامی جواز‘ کے طور پر بھی پیش کر کے خود کو قانونی مواخذے سے بچانے کی سبیلیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب یہی موقع پرست اسرائیلی سیاست دان فلسطینیوں اور ان کی قیادت کو خاک و خون میں نہلا کر اسرائیلی قیدیوں کے احتجاجی لواحقین کو بیوقوف بنا رہے ہیں کہ دیکھیں آپ کے پیاروں کی حماس کی قید سے واپسی کے لیے کیا کیا جتن کیے جا رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم نے عدلیہ سے سینگ پھنسانے کے بعد داخلی سلامتی کے اہم شعبے شین بیت کے سربراہ رونن بار کو بھی مدت ملازمت ختم ہونے سے پہلے فارغ خطی دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ غزہ جنگ کتنی ناگزیر ہے، تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت سے نتن یاہو کے فیصلے پر عمل درآمد فی الحال کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ رونن بار سات اکتوبر 2023 کے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے اہم سرکاری عہدیدار تھے۔

اسرائیلی اٹارنی جنرل کو بھی ملازمت سے بےدخل کرنے کی دھمکی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے سامنے خود کو مضبوط سیاسی و عسکری شخیصت کے طور پر پیش کرنے والے نتن یاہو داخلی طور پر درپیش سکیورٹی اور سیاسی چیلنجز کے باعث کتنے کمزور ہیں کہ انہیں ان گردابوں سے نکلنے کے لیے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے خون کی ضرورت پڑ رہی ہے۔

اسرائیلی معاشرے کی اکثریت سوال کرنے کے بجائے لامتناہی حکومتی جھوٹ کو سچ جان کر اس سوچ میں غلطاں ہے کہ زیادہ سے زیادہ بمباری اور سینکڑوں فلسطینیوں کا خون بہا کر ہی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اسی بے نتیجہ انجام کا گھن چکر اسرائیل کو مزید اخلاقی اور عسکری انحطاط کا شکار بنا رہا ہے۔

یہ صورت حال صرف فلسطینیوں سے متعلق اسرائیلی بےاعتناہی کا بیان نہیں بلکہ اس حقیقت کی بھی چغلی کھا رہی ہے کہ اسرائیلی کارپردازوں کو اپنے قیدیوں کی زندگیوں سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ بدقسمتی سے عوام اور میڈیا کی معنی خیز خاموشی نتن یاہو جیسے موقع پرست سیاسی رہنما کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کسی حد تک معاون ثابت ہو رہی ہے۔

نتن یاہو کے اسرائیلی حالات سے متعلق تجاہل عارفانہ کا انجام مسلسل رونما ہونے والے جنگی جرائم کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ وہ چند روزہ اقتدار کی خاطر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے سے لے کر اسرائیل کی معاشرتی آہنگی اور مشرق وسطیٰ کے استحکام سمیت ہر چیز جلا کر بھسم کر رہے ہیں۔

وہ دن دور نہیں جب نتن یاہو کو تاریخ میں اسرائیل کی بڑی ناکامی کے بنیادی ذمہ دار مجرم کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ انہوں نے ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش میں اسرائیلی عوام کو تمام محاذوں پر تنہا کیا اور ہر سفارتی اقدام کو سبوتاژ کر کے دنیا بھر میں سکیورٹی رسک بنا دیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر