دنیا کا ہر ذی شعور شخص پڑوسیوں کے بیچ میں امن و آشتی چاہتا ہے۔ کشمیری سب سے زیادہ امن کے خواہاں ہیں۔ وہ ہر جانب سے پچھلے 70 برسوں سے پٹ رہے ہیں، پس رہے ہیں اور مارے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے لائن آف کنٹرول کے آر پار رہنے والے وہ خاندان جو ہر وقت گولہ باری کی زد میں رہتے ہیں بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ سیز فائر کے معاہدے پر خوش ہیں۔
یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں
سرحد پر رہنے والوں کو اگر کچھ دیر کے لیے گولیوں کی گھن گھرج کے بغیر زندہ رہنے کی راحت ملتی ہے (گو کہ ماضی کی مثالیں سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو یہ زیادہ دیر قائم نہیں رہتی) تو سب کو دل کھول کر اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
البتہ اس معاہدے کا اس وقت ہونا اور پھر اس کا اچانک اعلان کرنا اس پر بیشتر عوامی حلقوں میں کچھ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ ایسے وقت جب دونوں ممالک ایک دوسرے پر جنگ کرنے، سبق سکھانے، عالمی اداروں میں ایک دوسرے کو رسوا کرنے، جاسوسی اور افراتفری پھیلانے کی تمام حدیں پار کر چکے ہوں، اچانک 2003 کے معاہدے کو بحال کرنے کا مشترکہ اعلان جاری کرتے ہیں تو یقینا اس پر حیران ہونا ایک فطری عمل ہے۔
راتوں رات یہ کیا ’چمتکار‘ ہوا؟ عمران خان چند روز پہلے تک مودی کو ہٹلر کے نام سے پکارتے رہے ہیں اور مودی جموں و کشمیر کو ہتھیا کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کرنے کا عزم دہراتے ہیں، کوئی غیبی طاقت ہی ہوسکتی ہے جو دونوں کی ڈور ہاتھ میں لے کر یہ کارنامہ سرانجام دے سکتی ہے۔
یورپ اور امریکہ کے سیاسی حلقوں میں یہ بات عیاں ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگی حالات کے باوجود اندرونی سطح پر بات چیت کا مبینہ خفیہ عمل جاری ہے۔ اس میں چین کی لداخ میں مداخلت کے بعد تیزی آئی مگر جہاں بات چیت کے عمل میں عالمی تھنک ٹینکس کا ہاتھ ہے وہیں بات چیت کے پیچھے دونوں ملکوں کے فوجی اداروں کا اہم کردار شامل ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ قیام امن کی کسی بھی پہل کو صرف ان کی افواج کامیاب بنا سکتی ہیں۔ یہ تاثر پہلے صرف پاکستان کے بارے میں پایا جاتا تھا۔
لندن میں عالمی امور کے ایک استاد ڈاکٹر شانتی بینرجی کہتے ہیں کہ ’بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو بالا کوٹ کے واقعے کے بعد اپنے سکیورٹی اور فوجی اداروں نے جنگی جنون پیدا کرنے پر لگام دے دی اور انہیں افغانستان سے لے کر انڈونیشیا تک ہندو راشٹر بنانے کے ان کے خواب پر عمل درآمد روکنے کا مشورہ دیا جس پر مودی اور آر ایس ایس کے بیچ ذرا سی دوری بھی دیکھی جا رہی ہے۔ اسی لیے کچھ عرصے سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ مودی کے طرز بیان میں تبدیلی آئی ہے حالانکہ آر ایس ایس والے اب خود ہندو راشٹر بنانے کے بیانات دیتے رہتے ہیں۔‘
ایک اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھارت میں اقتصادی مندی اور کسانوں کے مسلسل احتجاج نے مودی کی خود ساختہ ’ناقابل تسخیر پوزیشن‘ کو کافی حد تک کمزور کر دیا ہے اور بی جے پی کے اندر کسانوں کے مسئلے پر شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے، خاص طور سے شمالی ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے اور کسانوں کی 70 فیصد آبادی میں پارٹی کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مودی کی پالیسیوں کے بڑے حامی ڈونلڈ ٹرمپ کے جانے کے بعد بھارت امریکہ کی نئی انتظامیہ میں اپنی پوزیشن کو واپس اس پٹٹری پر لانے کے لیے کوشاں ہے جو اوباما کے دور میں اسے حاصل تھی۔ اقلیتوں اور کسانوں کے خلاف مودی کی پالیسیوں پر ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کی ہے۔
اب تک یہ شدت سے محسوس کیا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ کے قریبی بن یامین نتن یاہو، محمد بن سلمان اور مودی کے ساتھ محض رسمی طور پر فون پر بات چیت کی ہے اور بھارت اس دراڑ کو پاٹنے کی کوشش میں ایسے بیانات سے گریز کرنے لگا ہے جن سے ہندوتوا پالیسیوں کی تشہیر ہوتی ہے۔ پھر عالمی میڈیا کی ہندوتوا کی اقلیت مخالف رپورٹوں کے باعث بھارت کی سیکولر شبیہ کافی متاثر ہوئی ہے۔
چین کے ساتھ سرحدی دراندازی پر مثبت بات چیت کے باوجود بھارتی فوج کو چین کی نیت پر اعتبار نہیں ہے اور پاکستان کو سیزفائر کی خوش فہمی میں رکھ کر چین سے نمٹنا قدرے آسان ہوسکتا ہے حالانکہ چین اس خطے میں اپنی سرمایہ کاری کو بچانے کے لیے اس معاہدے کا خواہاں ہے۔
اگرچہ مودی کے ہاتھ میں اپنے فوجی اداروں کی لگام بھی اتنی لمبی ہے جتنی عمران خان کے پاس اپنے فوجی اداروں کی ہے، لیکن پاکستانی فوج کبھی اس الزام سے خود کو بری نہیں کر پائی ہے کہ وہاں اصل حکومت فوجی ادارے چلاتے ہیں اور ملک کے وزیر اعظم کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کی پاکستانی کابینہ میں ہوتی ہے۔
بھارت کی فوج جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر پس پردہ ملکی سیاست میں وہ سب کام کر تی آ رہی ہے جو پاکستان کی فوج جمہوری حکومتیں گرا کر ماضی میں سرعام کرتی رہی ہے۔
خیال ہے کہ عمران خان کو بھی باجوہ صاحب نے بچوں کی طرح سمجھایا بجھایا ہے کہ ’کشمیریوں کے ہمدرد بننے سے پہلے کم از کم ہمیں پوچھ لیا کریں اور یہ نازی، ہٹلر اور ہندوتوا کہنے سے گریز کیا کریں۔ کشمیر ہماری شہہ رگ ہے جس کو رکھنے یا کاٹنے کا حق صرف ہمارا ہے۔ جنرل مشرف اس کو کاٹتے کاٹتے رہ گئے۔ اس سے پہلے شملہ معاہدے میں بھی اس شہہ رگ سے ہم نے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بعض کشمیری ہمارا دامن ہی نہیں چھوڑتے۔‘
بقول کشمیری صحافی خالد امین ’یہ بھی ممکن ہے کہ خود عمران خان بھی اس نئی پیش رفت کے بارے میں لاعلم تھے اور انہیں بھی میڈیا کے ذریعے جب اجیت ڈوول اور معید یوسف کی ملاقاتوں کے بارے میں پتہ چلا تو وہ البیرونی کو تلاش کرنے کے لیے جہلم کے پہاڑوں پر پہنچ گئے ہیں۔‘
مجھے یاد ہے جب جموں و کشمیر کی کابینہ کے اجلاسوں میں سرحدوں کی سکیورٹی معاملات پر بحث شروع ہوتی تھی تو فوجی اداروں کے سربراہ یا افسر وزرا کی توجہ ہٹانے کے لیے تعلیم، سڑک جیسے موضوعات اٹھاتے تھے یا اجلاس چھوڑ کر چلے جاتے تھے۔ جہاں تک جموں و کشمیر یا پاکستانی کشمیر کا تعلق ہے تو اس پر دونوں ملکوں کی افواج کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
لگتا ہے کہ عمران خان کی صف میں اب حریت کے بزرگ رہنما سید علی شاہ گیلانی بھی شامل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے سیزفائر معاہدے پر بیان دیا کہ فورا ان کے خلاف فرمان جاری ہوا کہ ایسے بیانات سے گریز کیا جائے کیونکہ ’ان سے ہندوتوا سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘
اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ جس شخص نے اپنی پوری زندگی، سیاست اور بصیرت پاکستان کی شہہ رگ بننے پر وقف کر دی ہو انہیں زندگی کے آخری مرحلے پر ’ہندوتوا کی حمایت‘ کا طعنہ بھی سننا پڑے گا۔
کشمیری قوم اس وقت ایک چوراہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف معتبر، دیانت دار قیادت کا فقدان ہے تو دوسری طرف پھر ایسے مراحل کا سامنا ہے کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کس کا دامن تھامے، کس کو دشمن سمجھے اور کس سمت کا تعین کرے، جس سے کم از کم عزت سے زندہ رہنے کا ایک موقعہ تو مل سکے۔