کیا تحریک انصاف اگلا الیکشن بھی جیت جائے گی؟

پنجاب کی ایک غیر معمولی سیاسی قوت کا ذکر کوئی نہیں کرتا لیکن یہ قوت اپنا وزن جس پلڑے میں ڈال دے گی وہ پلڑا بھاری ہو جائے گا۔

2018 کے انتخابات میں تحریکِ لبیک 22 لاکھ ووٹ لے کر سب کو حیران کر گئی تھی (اے ایف پی)

کیا اگلا الیکشن بھی تحریک انصاف کا ہو گا؟ یہ سوال پڑھ کر اگر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ آپ کے لبوں پر پھیل جائے تو ایک لمحے کو رک کر اس امکانی منظر نامے پر غور کر لیجیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں

 

یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ وفاق میں حکومت اسی کی بنتی ہے جو پنجاب سے میدان مار لے۔ پنجاب کی اس اہمیت کو یوں سمجھ لیجیے کہ پورے بلوچستان سے قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد17 ہے، خیبر پختونخوا میں یہ تعداد 43 ہے اور سندھ سے قومی اسمبلی کی کل نشستیں 75 ہیں۔ ان تینوں صوبوں کی کل نشستیں 135 ہیں، جب کہ اکیلے پنجاب سے قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد 183 ہے۔

یعنی تینوں صوبوں کی نشستیں ملا لی جائیں تب بھی پنجاب کے حصے میں 48 نشستیں زیادہ ہیں۔

جب ہم پنجاب میں سیاسی طاقت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو بنیادی حریف سمجھتے ہیں اور اس بات پر ایک عمومی سا اتفاق پایا جاتا ہے کہ آصف زرداری کے دور اقتدار نے پنجاب سے پیپلز پارٹی کا قریب قریب صفایا کر دیا ہے۔ یہ تجزیہ اپنی جگہ پر درست ہو سکتا ہے لیکن اس منظر نامے میں ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں پنجاب کی ایک غیر معمولی سیاسی قوت کا ذکر نہیں۔ یہ قوت اپنا وزن جس پلڑے میں ڈال دے گی وہ پلڑا بھاری ہو جائے گا۔

یہ قوت کون سی ہے؟ یہ تحریک لبیک ہے۔ گذشتہ انتخابات میں یہ جماعت اتنی سیٹیں نہیں جیت سکی اس لیے سیاسی مباحث میں اس جماعت کو بالعموم نظر انداز کر دیا گیا، لیکن اگر نشستوں کی بجائے اس کو ملنے والے ووٹ پر نگاہ ڈالی جائے تو ایک اور تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

تحریک لبیک کو پنجاب سے قریباً 22 لاکھ ووٹ پڑے تھے۔ اس جماعت کو ملنے والے ہر 100 ووٹوں میں سے 75 ووٹ پنجاب سے تھے۔ یعنی پنجاب ہی اس کا گڑھ ہے۔ اگر متناسب نمائندگی کا اصول کارفرما ہوتا تو ان 22 لاکھ ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں تحریک لبیک کی نو اور پنجاب اسمبلی میں 21 نشستیں ہوتیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ 2018 کا الیکشن اس جماعت کا پہلا الیکشن تھا۔ اپنے پہلے ہی الیکشن میں اس جماعت کی فعالیت کا یہ عالم تھا کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے 141 حلقوں میں اس نے 121 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ یعنی اسے پارٹی ٹکٹ کے لیے امیدواروں کی تلاش میں کسی بحران کا سامنا نہیں تھا۔

تحریک لبیک پاکستان کی کارکردگی بھی معمولی نہیں تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی جیسی پرانی جماعت پنجاب میں قومی اسمبلی کی 27 نشستوں پر تیسرے نمبر پر رہی۔ جب کہ تحریک لبیک 62 نشستوں پر تیسرے نمبر پر رہی۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ رہا کہ 22 لاکھ ووٹوں کے باوجود نشستیں نہ جیت سکی۔ چونکہ یہ اس کا پہلا الیکشن تھا اور کسی نے اسے سنجیدگی سے لیا ہی نہیں تھا کہ اس سے کوئی باوقار معاملہ کر کے کوئی جماعت سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کرتی۔

اس بار مگر معاملہ مختلف ہے۔ تحریک لبیک اب ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس کے ہاں بھی یہ سوچ یقیناً پیدا ہو چکی ہو گی کہ اتنے بڑے ووٹ بینک کے باوجود ایوانوں تک نہیں پہنچا جا سکا تو کیوں نہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے کوئی حل نکالا جائے۔ یہ سوچ ابھی پیدا نہیں ہوئی تو آئندہ انتخابات میں یہ پیدا کی جا سکتی ہے۔ سب کو معلوم ہے اس کے پاس 22 لاکھ کا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس بار اگر کسی جماعت نے ان کے ساتھ باوقار معاملہ کرتے ہوئے سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کر لی اور انہیں کچھ نشستیں دے دیں تو پنجاب کی حد تک سارا انتخابی منظر بدل جائے گا۔

غالب امکان یہ ہے کہ یہ ایڈجسٹمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ ہو گی۔ نادیدہ اور ناگفتہ وجوہات کو ایک طرف رکھ دیجیے اور سامنے کی حقیقتوں کی بنیاد پر معاملے کو دیکھ لیجیے تب بھی یہی منظر نامہ بنتا ہے کہ تحریک لبیک تحریک انصاف ہی کی حلیف بن سکتی ہے، پی ڈی ایم کی نہیں۔

پی ڈی ایم کو پہلے ہی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا بڑا چیلنج ہو گا۔ یہ کہنا بھی قبل از وقت ہو گا کہ اگلے الیکشن میں بات سیٹ ایڈجسٹمنٹ تک جاتی بھی ہے یا پی ڈی ایم کی جماعتیں الگ الگ شناخت سے الیکشن لڑتی ہیں۔ ہو سکتا ہے تحریک انصاف کا مقابلہ پی ڈی ایم ایک مشترکہ انتخابی الائنس کے تحت کرے۔ اس صورت میں امکان غالب یہی ہے کہ جہاں سے جو جماعت گذشتہ الیکشن جیتی ہو وہاں سے اسی کو ٹکٹ دیا جائے۔ اس فارمولے میں تحریک لبیک کے لیے گنجائش کم ہو گی۔

تحریک لبیک کا فکری زاد راہ بھی اسے پی ڈی ایم کا حلیف بنانے کی راہ میں حائل ہے۔ مسلم لیگ ن کے ساتھ جانا تحریک لبیک کے لیے ممکن نہیں اور تحریک لبیک کے ساتھ جانا پیپلز پارٹی کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ وجوہات سب کو معلوم ہیں، تکرار کی ضرورت نہیں۔ جے یو آئی کے ساتھ اس کی فقہی اختلافات بھی بالکل واضح ہیں اگر چہ وہ یہاں زیادہ اہم نہیں کیونکہ جے یو آئی کا میدان پنجاب نہیں ہے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ پی ڈی ایم کے ساتھ اس کا انتخابی اتحاد گفتہ اور نا گفتہ ہر دو زاویوں سے نا ممکن ہے۔

کہے ان کہے، تمام عوامل تحریک لبیک کے تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کے امکانات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اب اگر آئندہ الیکشن یہ دونوں مل کر لڑتی ہیں تو پنجاب میں کون ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے؟ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا حصہ ضرور ہے لیکن زرداری صاحب کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی ن لیگ کی لڑائی نہیں لڑ سکتی اور نہ ہی عام انتخابات میں اس کی بی ٹیم کا کردار ادا کر سکتی ہے۔

پی ڈی ایم کے فورم سے جدوجہد الگ بات ہے اور پنجاب میں مل کر الیکشن لڑنا ایک بالکل دوسرا معاملہ ہے۔ پیپلز پارٹی یہاں پہلے ہی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور ن لیگ پنجاب کو گڑھ سمجھتی ہے۔ یہاں ن لیگ فطری طور پر زیادہ نشستیں مانگے گی اور پیپلز پارٹی کو معلوم ہو گا کہ یوں اس صوبے سے ن لیگ کے حق میں اس بڑی حد تک دستبردار ہونے کا مطلب پیپلز پارٹی کی مکمل تباہی ہے۔ پیپلز پارٹی ن لیگ کی خاطر اپنی بنیادوں کو کیوں کھودے گی؟ آصف زرداری کسی بھی وقت کوئی فیصلہ کر کے سب کو حیران اور ن لیگ کو پریشان کر سکتے ہیں۔

 تاہم اگر یہ انہونی ہو ہی جائے اور پی ڈی ایم ایک الائنس کی صورت میں الیکشن میں آئے تب بھی پنجاب کی حد تک اس کی حیثیت کمزور رہے گی۔ پی ڈی ایم میں ن لیگ کے سوا کسی کے پاس کوئی قابل ذکر قوت نہیں۔ جے یو آئی بلوچستان اور کے پی تک محدود ہے۔ اچکزئی صاحب کی جماعت بلوچستان کے ایک دو اضلاع تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں پہلے ہی سمٹ چکی ہے۔ ایسے میں پنجاب میں تحریک انصاف اور تحریک لبیک کا مقابلہ کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔

پنجاب سے باہر نکلیں تو شہری سندھ میں ایم کیو ایم بڑی قوت ہے اور وہ تحریک انصاف کی حلیف ہے۔ بلوچستان میں باپ (بلوچستان عوامی پارٹی) تگڑی ہے اور یہاں سے جے یو آئی میں دراڑ پڑ چکی ہے اور مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد الگ ہو چکے ہیں۔ کے پی کے میں تحریک انصاف شروع ہی سے مضبوط ہے۔ ن لیگ پنجاب کے علاوہ باقی تینوں صوبوں میں برائے نام ہے اور اس کے سارے حلیف پنجاب میں برائے نام ہیں۔

حکومت البتہ اپنی ناقص کارکردگی کے بوجھ تلے خود ہی خود کو کچل دے تو وہ ایک الگ معاملہ ہو گا۔ اس صورت میں کاغذوں پر کی جانے والی ساری جمع تفریق بے معنی ہو جائے گی اور دیوار پر لکھا غالب آ جائے گا۔

یوں کہہ لیجیے کہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف کو تحریک انصاف سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ