کیا کشمیری ماضی کو بھول جائیں؟

یہ پہلی بار ہے کہ کشمیری جنرل باجوہ کی تقریر پر جذباتی نہیں ہوئے اور نہ جذبات میں بہہ کر آنسو بہائے جو ماضی میں اکثر ہوتا آیا ہے۔

 سری نگر کے شمال میں ایک گاؤں میں ایک کشمیری خاتون اپنے مکان کے داخلی دروازے پر کھڑی ہے۔  بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 40 ہزار سے زائد خواتین ’آدھی بیوائیں‘ کہلائی جاتی ہیں(اے پی)

 

یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں


اسلام آباد سٹریٹجیک ڈائیلاگ نامی کانفرنس میں پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جب ’ماضی کو بھول کر مستقبل سنوارنے‘ کا مشورہ دیا تو بھارت اور پاکستان پر مشتمل تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی نے اس کا خیرمقدم کیا۔

بھارتی میڈیا نے تو پاکستان کی ’بدلتی حکمت عملی‘ کے تمام پہلووں کو اجاگر بھی کیا اور اس تبدیل ہوتی تصویر کو اصل میں مودی کی سخت گیر پالیسیوں کا حاصل قرار دیا۔

جنرل باجوہ کی تقریر سن کر تقریباً ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں نے بھی بظاہر اطمینان محسوس کیا مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی کرنے لگے کہ ماضی کو بھولنے کا نسخہ بھی بتایا ہوتا تو وہ ان کی کامیابی کی دعائیں مانگتے۔

یہ پہلی بار ہے کہ کشمیری، جنرل باجوہ کی تقریر پر جذباتی نہیں ہوئے اور نہ جذبات میں بہہ کر آنسو بہائے جو ماضی میں اکثر ہوتا آیا ہے۔ محبت کے اندھے عشق میں روتے ہی رہتے ہیں۔

معروف مورخ آرنلڈ ٹاین بی نے لکھا ہے کہ ’ماضی کو بنیاد بنا کر حال کی تعمیر ضروری ہے تاکہ مستقبل کا ایک روڈ میپ ترتیب دیا جاسکے۔‘ لیکن ماضی کو بھول کر مستقبل تعمیر ہوتا ہے؟ کشمیری قوم کے سامنے یہ سوال زندگی اور موت کی اہمیت رکھتا ہے۔

اگر ماضی کو بھولنا اتنا آسان ہوتا تو یورپ میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران نازی جرمنی کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کی یاد میں تقریبات منعقد نہ ہوتیں، مسولینی کی فسطائیت کو لیبیا، ایتھوپیا یا ترکی میں بار بار یاد نہ کیا جاتا، سیاہ فاموں کی موجودہ تحریک اتنی مضبوط نہ ہوتی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔

ماضی کی یادوں کو اپنی پسند اور منشا کے مطابق منتخب نہیں کیا جاتا۔ ہاں، ماضی کی کچھ ’تلخیوں‘ کو بھول کر نئی راہیں متعین کی جا سکتی ہیں۔ ماضی تو ہم سب کی محفوظ جاگیر ہوتی ہے جس کو نہ بھلایا جاسکتا ہے اور نہ بدلا جاسکتا ہے۔

کشمیری قوم ہمیشہ اس خواب کو پالتی رہی ہے کہ کاش دونوں ممالک ماضی کی باہمی رنجشیں اور دوریاں مٹا کر اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنا سیکھتے۔

ساتھ ہی اس خواب کے سہارے زندہ بھی ہیں کہ شاید ایک دن آئے گا جب انہیں بھی امن سے رہنے کی ضمانت ملے گی، بغیر تلاشیوں کے راستے پر چل پائیں گے، اپنے بچوں کو انٹروگیشن کے بغیر سکول بھیج پائیں گے، نوجوانوں کو محاصروں میں جھلستے ہوئے یا بستیوں کو بارود کی نذر ہوتے نہیں دیکھیں گے۔

جنرل باجوہ جانتے ہیں کہ یہ عذاب کشمیریوں پر گذشتہ سات دہایوں سے نازل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد خود پاکستان نے یہ نعرہ دیا کہ ’کشمیر بنے گا پاکستان۔‘ کیا وہ ماضی کی اس تلخ حقیقت کو بھولنے کا مشورہ دیتے ہیں؟

جنرل صاحب اگر اس کی وضاحت کرتے تو ہزاروں نوجوانوں کو موت کے چنگل میں جانے سے بچایا جاسکتا ہے اور یہ اس قوم پر ایک بہت بڑا احسان مانا جاتا۔

ماضی کی ہی بات ہے کہ بیشتر کشمیریوں نے جب پرامن تحریک کو لاحاصل پایا تو پاکستانی کشمیر میں تربیت اور ہتھیار حاصل کر کے مسلح تحریک شروع کی۔

وادی کا ہر گھر ماتم کدہ بن گیا، ہر شہر قبرستان اور ایک لاکھ سے زائد نوجوان تشدد کے ہاتھ چڑھ گئے۔ جنرل صاحب کو بتانا ہوگا کہ کیا مسلح تحریک ماضی کی بہت بڑی غلطی تھی اور اس کو ماضی کے ساتھ دفن کرنا چاہیے؟

گذشتہ تین دہایوں کا حاصل یہ ہے کہ 10 ہزار سے زائد افراد لاپتہ ہیں، 40 ہزار سے زائد خواتین ’آدھی بیوائیں‘ کہلائی جاتی ہیں، ایک لاکھ سے زائد لڑکیاں رشتہ ازدواج میں بندھ نہیں سکیں کیونکہ جن کے ساتھ رشتہ ہونے والا تھا وہ تشدد کی نظر ہوگئے، 15 ہزار سے زائد عورتیں جنسی تشدد کا شکار ہوگئیں، ہزاروں نوجوان پاکستانی کشمیر میں بے یارو مددگار ہیں اور بعض دوسرے ملکوں میں بغیر شہریت کے مارے مارے پھر رہیں ہیں۔

سات سو سے زائد افراد نامعلوم قبروں میں دفن ہیں جن پر صرف نمبر پلیٹ رکھ دیے گئے ہیں۔

کیا جنرل باجوہ اس سب کو بھولنے کا طریقہ بھی بتا سکتے ہیں یا کم از کم اس بات کو کھل کر کہہ دینے کا احسان کریں گے کہ مسلح تحریک کو ترک کر دینا چاہیے اور پاکستان کبھی اس کا ساتھ نہیں دے گا؟

بھارت نے جو کشمیریوں کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ قرار دیتا آ رہا ہے بات چیت شروع کرنے سے پہلے تو یہی شرط رکھی تھی۔ تو کیا یہ شرط مان کر ماضی کی غلطیوں کا سدھار شروع ہوا ہے؟

کشمیریوں کے لیے یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اگر ماضی کو بھول بھی جائیں تو 5 اگست 2019 کے بعد جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے کیا اس کو بھول سکتے ہیں؟ ریاست کے خاتمے کے بعد اب مسلم کردار پر شب خون مارنے کی پالیسی جاری ہے۔ کیا اس پر بھی آنکھ بند کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے؟

جنرل باجوہ اس بات سے واقف ہیں کہ سن 47 کے بعد کشمیریوں کے پاس اگر کچھ بچا تھا تو وہ تخیل کی حد تک ہی سہی، بس اندرونی خودمختاری تھی جس کی رو سے وہ اپنی زمین، جائیداد، پرچم، آئین، زبان، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی معاملات پر اپنا ذرا سا اختیار رکھتے تھے حالانکہ اس آرٹیکل کو بھی اندر سے کھوکھلا بنا دیا گیا تھا۔ اب اگر ماضی کو بھولنے کی صلاح ہے کیا کشمیری اپنی مخصوص شناخت کو بھی بھول جائیں؟

بھارت میں ہندوتوا کی لہر کے نتیجے میں ہندو راشٹر بنانے کی بات ہو رہی ہے، گھر واپسی کی تحریک شروع ہو چکی ہے جس کے تحت مسلمانوں کو واپس ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، مسلمان بچے کو مندر کے نلکے سے پیاس بجھانے پر ذدوکوب کیا گیا، کشمیر میں ہندوؤں کو بسانے کے لیے شہریت کی سندیں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جا رہی ہیں اور مسلمان خوف اور دہشت کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے میں جب ماضی کو بھولنے کا فرمان جاری ہوتا ہے تو بقول ایک کشمیری دانشور کے ’باجوہ صاحب کو ماضی کو بھولنے کے بجائے تاریخ کی کتابوں کو جلانے کا فرمان جاری کرنا چاہیے۔

بھارتی میڈیا بار بار یہ بات دہرا رہا ہے کہ پاکستانی جنرل جب امن کا شوشہ چھوڑتے ہیں تو کرگل جیسے واقعات رونما ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔

مگر کشمیریوں کو نہ تو کرگل سے کوئی سروکار ہے اور نہ ماضی کو بھول جانے والی بات ہضم ہوتی ہے۔ یہ ایسی قوم ہے جس کے پاس صرف ماضی ہے اور اس کا مستقبل غاصبوں نے چھین لیا ہے۔ اگر وہ ماضی کو بھولنے لگی تو شاید ہی اپنی عزت نفس، وقار اور خواب کو بچا پائے گی۔‘

بھارت اور پاکستان کو باہمی امن، معیشت اور ترقی کی خاطر ماضی کو بھولنے کی کوشش کرنے چاہیے مگر اس کشمیری ماں کو ماضی بھولنے کی ہمت دینی ہوگی جس کے چار بیٹے مکان کے صحن کے پیچھے دفن ہیں۔

وہ ہر صبح ان قبروں پر پانی ڈالتی ہے۔ اطہر کے والد کو مائل کرنا ہوگا جو بیٹے کی خالی قبر کے سامنے کئی ماہ سے اس کی لاش واپس ملنے کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ بیٹے کو بھول جائیں؟

شبیر شاہ اور یاسین ملک جیسی سینکڑوں بیٹیوں کو اپنے والد کو فراموش کرنے پر راضی کرنا ہوگا جو بچپن کی شوخیوں سے محروم کر دی گئیں ہیں کیونکہ ان کے والد سمیت ہزاروں قیدی کئی دہایوں سے جیل کی کال کوٹھریوں میں ماضی کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے سختیاں جھیل رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ