ہم تاریخ کے اُس موڑ پر پہنچ چکے ہیں جہاں تہذیبوں کا ٹکراؤ اور عقیدوں کی جنگ انسانیت کو نیست و نابود کرنے کی راہ پر ہے۔
کبھی اس زمین میں پنپنے والی محبتیں اور نفرتیں زر، زن اور زمین کے گرد گھوما کرتی تھیں۔اب یہ گلوبل ولیج مفادات کے حصول کی خاطر چھیڑی گئی جنگوں، ذات پات، فرقے اور عقیدے کی آگ میں بھسم ہو رہا ہے۔
اسی آگ پر پانی ڈالنے کا کام سینٹ پال چرچ کی بشپ اور لندن کے مئیر صادق خان نے کیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ لندن کے سینٹ پال چرچ میں ایک بین المذا ہب ہم آہنگی پر مبنی افطار پارٹی کا اہتمام کرتے ہوئے اُن نوجوانوں کو مدعو کیا گیا جن کا عقیدہ کچھ بھی تھا یا نہیں تھا۔
ایک خاتون بشپ اور ایک مسلمان مئیر کی جانب سے سینٹ پال چرچ میں تمام قومیتوں اور فرقوں کے نوجوانوں کے لئےافطاری کا بندوبست ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا اور دیگر عالمی رہنماؤں کے لئے اہم پیغام ہے۔
فرقوں اور عقیدوں کے بیچ تقسیم ہوتی دنیا کے لئے یہ افطار پارٹی امن کا استعارہ بنی ہے۔ نفرت کی بھڑکتی آگ کو و محبت کی دھیمی آنچ سے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے تہذیبوں کا یہ تصادم ہمیں جہنم کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مذہب اور فرقے کی بنیاد پر پلنے والی نفرتیں کیا گل کھلا رہی ہیں ۔
کچھ برس قبل تک ہم اسلامو فوبیا کے لفظ سے نا آشنا تھے۔ پوری دنیا کے سیاح تہذیب یافتہ، خوبصورت اوربا کمال مغربی ملکوں کا رخ کرتے تھے تو کسی کو یہ ڈر نہ تھا کہ وہاں پر بھی دہشت گردوں کا حملہ ہو سکتا ہے۔
تاہم گذشتہ چند برسوں نے اس امن و آشتی کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ پہلے تو نسل پرستی کا الزام صرف ہمارے خطے کے لوگوں پر لگتا تھا مگر اب گوروں نے بھی اپنے قوانین انتہائی سخت کر دیے کہ ان پر نسل پرست ہونے کا لیبل لگ گیا ۔
چارلی ہیبڈو واقعے کے فورا بعد فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ جہادیوں کو فرانس سے بے دخل کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ دور میں امیگریشن کے انتہائی سخت اصول وضع کیے گئے بلکہ کئی دہائیوں سے امریکہ میں مقیم مختلف قومیتوں خاص کر مسلمانوں اور پاکستانیوں کو در بدر کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
گذشتہ چند مہینوں امریکہ ، برطانیہ ،نیوزی لینڈ ، سری لنکا میں جس قسم کے واقعات رونما ہوئے اس سے یہی نظر آتا ہے کہ ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔
اب وہاں مسجدوں پر حملے بھی ہو رہے ہیں، حجاب پر پابندی بھی لگائی جا رہی ہے۔ اب ان کا اعلان ہے کہ اگر تم ہماری تہذیب اور ثقافت کو رد کرو گے تو ہم بھی تمھیں رد کر تے ہیں۔
مسلمان کئی عشروں سے ان ممالک میں چین و سکون کی وہ زندگی گزار رہے تھے جہاں عقیدے کی بنا پر تفریق نہیں تھی اور راوی چین ہی چین لکھتا تھا، لیکن حالیہ واقعات اس بات کے غماز ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔
امریکہ، برطانیہ، جرمنی، پیرس اور اٹلی جو کبھی مذہبی رواداری کی علامت تھے اب عقیدے اور رنگ و نسل کی بنیاد پر ہونے والے تصادم سے مبرا نہیں رہے۔
ان ممالک نے واشگاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ ہمارے ملک میں رہنے کے لئے ہماری تہذیب، ثقافت، کلچر، آرٹس کو اپنانا اور قوانین کی پیروی کرنا لازمی ہے، لیکن ہم بھی تو ایسا ہی کرتے ہیں کبھی ہم روزہ نہ رکھنے اور سر عام کھانے پر کسی بوڑھے کو مارتے ہیں تو کبھی مذہب یا فرقے کی بنا پر لوگوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔
ہم پاکستانی ، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسینڈا آرڈرن کو پسند تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کے جیسا بڑا دل رکھنے کے متحملی بنا پر لوگوں کو ملک چھوڑ کر جانا پڑ نہیں ہو سکتے۔ یہی جیسنڈاآرڈرن اگر پاکستانی شہری ہوتیں تو ہم کب کا ان پر فتوی لگا چکے ہوتے ۔
اس وقت اس دنیا کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو خاک ہوتی اس دنیا کو ایک بار پھر امن کی جانب لے جا سکیں۔