جہانگیر ترین کے معاملے کو وزیر اعظم خود ذاتی طور پر بڑے انہماک سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اس کا اختتام وہ کس طریقے سے کرتے ہیں یہ بڑا سوال ہے۔
معاملہ ہے جہانگیر ترین گروپ کا۔ گروپ تو بعد میں بنا اصل میں تو یہ خود جہانگیر ترین کا مسئلہ ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف تین ایف آئی آرز درج کی گئیں ہیں۔
وزیر اعظم کہتے ہیں کہ یہ ایف آئی آرز اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا چینی مافیا نے قیمتیں بڑھائیں، برآمد کی اور یہ کام قانون سے ہٹ کر کیا گیا۔
دوسری طرف جہانگیر ترین کہتے ہیں کہ دراصل وزیر اعظم کے دفتر کے اہم لوگوں کے ساتھ ان کے سیاسی اور ذاتی اختلافات ہیں۔ ایف آئی آر میں نہ چینی کا ذکر ہے نہ کسی اور چیز کا۔
یہ تو ان کے کاروبار کے پرانے معاملات کو کھولا جا رہا ہے۔ اس بابت وہ نشاندہی کرتے ہیں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر کی جانب۔
کچھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ آئی بی کے سربراہ اعظم خان کے پرانے دوست ہیں اسی وجہ سے ان معاملات پر آئی بی چیف بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو یہ اہم مسئلہ ہے اور اس پر وزیر اعظم نےایک اپنا فیصلہ تو شروع میں سنا دیا تھا جب انہوں نے پارٹی کے سینیٹر اور جسٹس اینڈ لا کمیٹی کے چیئرمین علی ظفر کو کہہ دیا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں کہ کہیں جہانگیر ترین کےساتھ قانونی طور پر کوئی زیادتی تو نہیں ہو رہی۔
لیکن اس فیصلے کا نتیجہ سامنے نہیں آ رہا اور لگتا ہے کہ یہ رپورٹ جہانگیر ترین گروپ اور وزیر اعظم کے دفتر کے اندر موجود طاقتور گروپ کی پیچیدگیوں میں کہیں کھو گئی ہے۔ پھر بھی فیصلہ تو وزیر اعظم نے کرنا ہے کہ اس پر بات آگے کیسے بڑھانی ہے۔
وزیر اعظم کو جہانگیر ترین کا معاملہ اس وجہ سے خود سنبھالنا ہے کیونکہ اس کے بہت اہم سیاسی اور غیر سیاسی پہلو ہیں۔ نمبر ایک وزیر اعظم کو جہانگیر ترین گروپ کے 30 اراکین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا اس لیے لازمی ہے کیونکہ پنجاب ہو یا قومی اسمبلی ان لوگوں کی ان کو ضرورت ہے۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ یہ انتظامی طور پر بھی ایک غیر مستحکم صورت حال پیدا کرتا ہے۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم اور لاہور میں وزیراعلیٰ آفس میں اس معاملے سے جو تناؤ پیدا ہوتا ہے وہ ان دونوں جگہوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس سے حکومت کی گورننس کے مسائل ہیں مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
نمبر تین یہ ایک بات زبان زدعام ہے خاص طور سے وہاں جہاں کہ رائے عامہ بنائی جاتی ہے کہ کیا اسلام آباد اور راولپنڈی میں کوئی اختلافات ہیں؟ بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ شاید جہانگیر ترین کو پنڈی سے سپورٹ حاصل ہے۔
جو وہ کہتے ہیں اور کرتے ہیں دراصل وہ پنڈی تک ان کی پہنچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ بات درست تو نہیں ہے لیکن یہ بات موجودہ ماحول میں اور بھی غیرمستحکم صورت حال پیدا کرتی ہے۔
چوتھا معاملہ یہ ہے کہ احتساب کا جو طریقہ کار ہے اس سے منسلک جس شفافیت کی ضرورت ہے اور یکطرفہ نہ ہونے کی ضرورت ہے وہ سوال جہانگیر ترین کے معاملے سے پھر اجاگر ہوتے ہیں۔ یہ معاملات ہیں جن کو وزیر اعظم نے حل کرنا ہے اور جلدی کرنا ہے۔
آخر کار ایک سیاسی پارٹی میں جب اس طرح کے سوالات اور مسائل اٹھیں تو سیاسی پارٹی اور حکومت وقت کے لیے جب وہ سیاسی پارٹی حکومت میں ہو یہ نامناسب صورت حال پیدا کرتے ہیں، خاص طور پر پاکستان میں جہاں آئے دن سازشی گفتگو آگے بڑھتی رہتی ہے۔
وزیر اعظم کے علی ظفر کو تعینات کرنے کے فیصلے کو ہر طرف سے سراہا گیا تھا کہ یہ ایک شخص ہے جس کی ایک ساکھ ہے کہ وہ پیشہ ورانہ اور ایمان داری سے اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ لیکن علی ظفر کی رپورٹ کے حوالے سے بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ابھی رپورٹ تو نہیں آئی لیکن جہانگیر ترین کے خلاف جو ثبوت ہیں ان پر زیادہ بات ہونی شروع ہوگئی ہے۔
مشیر احتساب شہزاد اکبر نے پچھلے تین چار روز میں ٹی وی پروگرامز میں آ کر بتایا کہ جہانگیر کے خلاف کتنے ثبوت ہیں۔ تو لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے شہزاد اکبر کو جہانگیر ترین کے خلاف بات کرنے کے اجازت دے دی ہے۔
البتہ علی ظفر نے ابھی اپنی رپورٹ مکمل نہیں کی ہے تو بظاہر لگتا ہے کہ ایک طرف تو علی ظفر اپنی رپورٹ مکمل کرنے میں مصروف ہیں لیکن ساتھ میں شہزاد اکبر کی جہانگیر ترین کے حوالے سے جو پوزیشن دلچسپ ہے۔ جہانگیر ترین گروپ نے ان کی اور وزیر اعظم کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔
ایک طرف علی ظفر اور دوسری طرف اس ٹیم کا مقابلہ تو نہیں لیکن اپنے نمبر بڑھا رہے ہیں اور اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا چاہ رہے ہیں۔ان حالات میں بہت تضاد لگتا ہے۔
اس صورت حال میں جب وزیر اعظم نےکہا ہے کہ تھرڈ پارٹی رپورٹ تیار کرے تو پھر جب ایف آئی اے اپنا کام کر رہا ہے تو شہزاد اکبر کو میڈیا میں آ کر جہانگیر ترین کے حوالے سےبات چیت کرنی چاہیے یا نہیں؟ ان سوالات پر وزیر اعظم کو غور کرنا ہوگا۔
تین طریقوں سے اس بات کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ سننے میں یہ آ رہا ہے کہ جہانگیر ترین گروپ کہہ رہا ہے آپ تینوں ایف آئی آر ختم کر دیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عدالت میں معاملات کو ایف آئی اے جاری رکھے اور جہانگیر ترین وہاں اپنا دفاع کریں اور شہزاد اکبر جہانگر ترین پر میڈیا میں اپنے حملے جاری رکھیں اور تیسرا یہ کہ عدالت میں کیس چلے اور جہانگیر ترین اپنا دفاع کریں اور وزیر اعظم آفس اور باقی جو حکومتی لوگ ہیں جیسے کہ شاہ محمود قریشی وغیرہ جو ان کے سیاسی حریف ہیں وہ بھی ساتھ ساتھ جہانگیر ترین پر حملے کرتے رہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا یہ ممکن ہے کہ جہانگیر ترین کے معاملے میں ہر طرف سے خاموشی اختیار ہو اور اس معاملے کو صرف عدالت میں آگے لے جایا جائے؟ جہانگیر ترین عدالت میں اپنا دفاع کریں اور علی ظفر کی رپورٹ جب آتی ہے اور وہ اس میں کہتے ہیں کہ پراسیکیوشن درست ہورہی ہے تو اس کو ایسے ہی آگے بڑھائیں۔
اگر علی ظفر کو لگتا ہے کہ پراسیکیوشن میں کچھ مسائل ہیں تو ان کو دور کیا جائے اور عدالت میں یہ بات عین قانون کے مطابق آگے بڑھائی جائے۔
اگر عدالت میں جہانگر ترین خود کو بے گناہ ثابت کرتے ہیں اور پراسیکیوشن قانونی طور پر آگے بڑھتی ہے تو پھر یہ معاملہ ختم ہوسکتا ہے۔ صحیح اور شفاف قانونی طریقے سے آگے بڑھیں تو اس کو سنبھالا جاسکتا ہے۔
جہانگیر ترین کے حوالے سے یہ مطالبہ سامنے آتا ہے کہ ایف آئی آر کو ختم کیا جائے۔ ایسا کرنا سیاسی طور پر عمران خان کے لیے بڑا مشکل ہوگا کیونکہ اگر ان کی ایف آئی آر کو ختم کریں تو پھر کتنوں کے مقدمات ختم کریں گے؟
ویسے ہی احتساب کے عمل پر تنقید ہوتی ہے کہ یہ یکطرفہ ہے، سیاسی انتقام ہے۔ پھر بات اور بڑھے گی کہ اپنے دوست، پرانے ساتھی اور پی ٹی آئی کا جو 30 لوگوں کا گروپ بنا ہے اس کو خوش کرنے کے لیےآپ ایف آئی آر ختم کر رہے ہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہےکہ علی ظفر اس کو آگے لے کر جائیں پراسیکیوشن کو بھی سنبھالیں اور ہر طرف سے سیاسی حملے بند ہوں۔ یہ معاملہ آسان نہیں ہے وزیر اعظم کو اس پر اصولی فیصلے کر کے ان پر اٹل رہنا پڑے گا۔