اسرائیلی بمباری سے مارے جانے والے 15 کارکنان کی لاشیں ایک ہفتہ بعد نکال لیں: فلسطینی ہلال احمر

ریڈ کراس فیڈریشن نے ڈیوٹی کے دوران آٹھ طبی ساتھیوں کے قتل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آخر یہ کب بند ہوگا؟‘

24 مارچ 2025 کو ایک فلسطینی شخص وسطی غزہ کی پٹی پر المغازی پناہ گزین کیمپ میں اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننے والی ایمبولینس کا معائنہ کر رہا ہے (اے ایف پی)

فلسطینی ہلال احمر نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک ہفتہ قبل غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ایمبولینسوں کو نشانہ بنانے کے دوران مرنے والے 15 امدادی کارکنوں کی لاشیں نکال لی ہیں۔

ادارے نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ ہلال احمر کے آٹھ طبی ارکان، غزہ کی سول ڈیفینس ایجنسی کے چھ اور اقوام متحدہ کے ایک ادارے کے ایک ملازم کی لاشیں نکالی ہیں۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہلال احمر کا ایک ڈاکٹر تاحال لاپتہ ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ ’قتل کیے جانے والے افراد کو اسرائیلی قابض افواج نے اس وقت نشانہ بنایا جب وہ امدادی کاموں میں مصروف تھے اور اسرائیلی گولہ باری سے زخمی ہونے والے متعدد افراد کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے لیے رفح جا رہے تھے۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’قابض افواج کی جانب سے ہلال احمر کے ڈاکٹروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے .. جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت قابل سزا جنگی جرم ہی سمجھا جا سکتا ہے، جس کی خلاف ورزی پوری دنیا کی نظروں کے سامنے جاری ہے۔‘

اس سے قبل ایک بیان میں ہلال احمر نے کہا تھا کہ لاشوں کو ’مشکل سے نکالا گیا کیونکہ وہ ریت میں دفن تھیں۔‘

غزہ کی سول ڈیفینس ایجنسی نے بھی 15 لاشوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قتل کیے جانے والا اقوام متحدہ کا ملازم فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے سے تھا، جسے یو این آر ڈبلیو اے بھی کہا جاتا ہے۔

یہ واقعہ 23 مارچ کو مصر کی سرحد کے قریب رفح شہر کے علاقے تل السلطان میں پیش آیا تھا، جس کے چند دن بعد فوج نے تقریباً دو ماہ کی طویل جنگ بندی کے بعد غزہ پر بم باری دوبارہ شروع کی تھی۔

دوسری جانب ریڈ کراس فیڈریشن نے اتوار کو ڈیوٹی کے دوران آٹھ طبی ساتھیوں کے قتل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’آخر یہ کب بند ہوگا؟‘

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ کا کہنا ہے کہ لاشوں کو سات دن کی خاموشی اور رفح کے اس علاقے تک رسائی ملنے پر نکالا گیا جہاں انہیں آخری بار دیکھا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا