شہباز شریف کا شکوہ ہے کہ ان کے بھائی اور بعد میں ان کی بھتیجی کی ضد نے پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے بطور سیاسی جماعت زمین تنگ کر دی ہے۔ ایک حد تک یہ شکوہ درست ہے۔
میاں محمد نواز شریف کی سیاست اتنے پیچ و خم سے گزری ہے کہ نہ ان کے اعتراض سمجھ میں آتے ہیں اور نہ ہی اعتراف۔ شہباز شریف کیمپ کا یہ کہنا جائز ہے کہ ان کی قیادت کی سیاست کی جڑوں میں کسی انقلاب کا خون نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات کو طے کرکے قافلے کو آگے بڑھانے والے لائحہ عمل نے اسے سینچا ہے۔
یہ اعتراض بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ نواز شریف پاناما کیس میں خود سے چل کر اس جکڑ کا شکار ہوئے جس نے ان کو طاقت، سیاست اور ملک سے جلاوطن کرنے کا ماحول بنایا۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ مریم نواز ہر وقت تلوار اٹھا کر جو سیاسی خونریزی کرتی ہیں اس کے نتائج شہباز شریف کو بھی بھگتنے پڑے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کا کچھ غصہ مریم اور نواز شریف پر نکلا مگر زیادہ متاثر شہباز شریف ہوئے۔
نواز شریف کی اولاد کے بر عکس ان کے کاروبار پاکستان میں ہیں جہاں پر ریاستی اداروں کا زور زیادہ چلتا ہے، لہذا شہباز شریف کی بازو مریم نواز کی سیاست کی وجہ سے زیادہ مروڑی گئی۔ اس اعتراض کا جواب دینا بھی مشکل ہے کہ نواز شریف موجودہ پالیسی کو کب تک چلا پائیں گے۔ وہ کون سی منزل ہے جو اپنے جنگجوانہ رویے سے قریب آتی نظر آ رہی ہے۔
تین سال سے مسلسل جھگڑے نے اسٹیبلشمنٹ کی آنے والی قیادت کو بھی جماعت کے بارے میں شکوک میں مبتلا کر دیا ہے۔ جو مسائل اب کھڑے کیے گئے ہیں وہ موجودہ قیادت کے جانے سے حل نہیں ہوں گے۔ آنے والے پچھلے چار سال کی تاریخ سے ہونے والی ذہن سازی کے ماتحت رہیں گے۔ وقت گزرتا جائے گا، لڑائی جاری رہے گی۔ نہ کوئی نتیجہ نکلے گا، نہ فائدہ ہو گا۔
خدا بھی نہ ملے گا، صنم بھی ناراض ہو گا۔ ایسے میں لائحہ عمل کو تبدیل کرنا ناگزیر ہے۔
مگر ہر شکوے کا جواب بھی ہوتا ہے۔ اس کو سنیئے تو محسوس ہوگا کہ شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ سے دوستی کرنے کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ ذہنی دھند کا شکار ہیں جو نواز شریف کی مزاحمتی پالیسی پر چھائی ہوئی ہے۔ یہ فرق ضرور ہے کہ مزاحمت و اعتراض کرنے والے اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتے ہیں کیوں کہ وہ آئین، قانون اور تاریخ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسی تسلی شہباز شریف کے یہاں نہیں پائی جاتی۔
جواب شکوہ کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ مفاہمت کا اگلا قدم کیا ہوگا اور یہ کیسے حاصل کی جائے گی؟ جنرل قمر باجوہ اور جنرل فیض حمید جاتی عمرا تو نہیں جائیں گے۔ نہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے بیٹھ کر نیا سیاسی معاہدہ طے کریں گے۔ وہ میز کہاں پر سجے گی جس پر بیٹھ کر شہباز شریف اپنے مفاہمتی فارمولے کو اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کے سامنے رکھیں گے؟
پھر یہ ٹیبل کتنی وسیع ہوگی؟ اس پر عمران خان کی جماعت کی کرسی دونوں جنرل صاحبان کے درمیان میں رکھی ہوگی، دائیں ہوگی، بائیں ہوگی، اونچی ہوگی یا وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے؟ اور اگر وہ سب کے ساتھ بیٹھیں گے تو کیا ضمانت ہے کہ وہ میز کو الٹانے سے پہلے اس پر پڑی چیزوں سے شریف خاندان، بھٹو خاندان اور فضل الرحمان پر تاک تاک کر نشانے نہیں لگائیں گے؟ اس کی وضاحت کوئی نہیں کرتا کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کے ذریعے سیاسی کھیل کے نئے قوائد وضع ہوں گے؟ اور پھر ایجنڈا آئٹم کیا ہوں گے؟
کیا شہباز شریف فوج اور انٹیلی جنس کے سربراہان کو بتائیں گے کہ خارجہ اور دفاعی امور کا کتنا حصہ راولپنڈی اور آبپارہ میں طے ہونا ہے اور کتنا وزیراعظم ہاؤس میں؟ معیشت میں سے فوج کو مستقل بنیادوں پر کتنے پیسے مختص ہونے ہیں اور کتنے عوام کے لیے رکھنے ہیں؟ مہینے میں کتنے سیاست دان فوجی سربراہ سے مل سکتے ہیں اور کیا کور کمانڈر کو سیاست دانوں سے ملنے کی اجازت ہوگی؟
جج صاحبان کو فیصلوں کی آزادی ہے یا نہیں؟ ذرائع ابلاغ اور اس کے مالکان کتنی ہدایات لے سکتے ہیں اور کہاں سے؟ کیا صرف آئی ایس پی آر کی سننی ہے یا وزارت اطلاعات کی بھی؟ کون سے صحافی ڈنڈے سے سدھارے جائیں اور کون سے وٹس ایپ پیغامات کے ذریعے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سیاست دانوں کے خلاف موجودہ مقدمات کس نے اور کیسے واپس لینے ہیں؟ کیا یہ مفاہمت کے نکات ہوں گے؟ کیا سب کچھ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہو گا؟ یا کسی پردے کے پیچھے خاموش نشست ہو گی؟
یہ مفاہمت ہوگی کیسے؟ یہ بتائے بغیر اس کی رٹ لگا کر خواہ مخواہ کی سیاسی کنفیوژن پیدا کی جا رہی ہے۔ شہباز شریف یا تو مفاہمت کے خدوخال بیان کر دیں اور اس کے طریقہ کار پر روشنی ڈالیں اور یا پھر اس کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں۔
دوسرا نکتہ شہباز شریف کی اپنی سیاست سے متعلق ہے۔ ان پر بننے والے مقدمات کا تعلق نواز شریف کی پالیسی سے نہیں۔ ان کی اپنی حکومت کے منصوبے اور ان کے خاندان کے کاروبار سے ہے۔ اس پر کوئی یقین نہیں کرتا کہ شہباز شریف نواز شریف کے مبینہ سخت بیانات کی وجہ سے زیر عتاب ہیں۔
ان کا بڑا بھائی اگر مسلسل چپ کا روزہ بھی رکھ لیتا تب بھی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف مقدمات بننے ہی تھے۔
مسئلہ پنجاب کی سیاست سے ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے شہباز شریف اس جماعت کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں جو پنجاب میں ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔
اگر وہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں کسی جماعت کے نمائندے ہوتے تو جو من میں آتے کرتے، کوئی کچھ نہ پوچھتا۔ بغیر پرمٹ کی گاڑیاں لاتے، نقلی سیگریٹ بیچتے یا شہد کا کاروبار کرتے، سب کچھ جائز تصور ہوتا۔ مگر چونکہ پنجاب میں سیاسی جڑیں رکھتے ہیں لہذا ان کے غم کم نہیں ہو سکتے۔ عمران خان کا احتساب اور اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا ن لیگ کی پنجاب میں سیاست کو بظاہر لگام ڈالنے کے لیے ہے، جس کے بغیر پاکستان میں سیاسی تجربہ گاہ نہیں چل سکتی۔
اور پھر آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شہباز شریف مفاہمت کی بات اپنی ذاتی سیاست اور کاروبار کے زاویے سے کرتے ہیں۔ وہ بےشک اپنے پالیسی کے عمومی فائدے گنواتے رہیں لیکن یہ واضح ہے کہ وہ ہاتھ ملا کر اپنے لیے سہولت مہیا کروانا چاہتے ہیں۔
یہ کوئی قابل اعتراض فعل نہیں ہے۔ کسی کو بھی بغیر جرم کے معاشی و سیاسی و ذہنی و کاروباری تکلیف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا حق سب کا ہے مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ شہباز شریف نے مفاہمت بھی کی اور جیل بھی کاٹی۔ فی الحال نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ یہاں سے وہ کدھر جائیں گے؟ اس کے بعد وہ کیا ایسا کریں گے جو انہوں نے پہلے نہیں کیا؟
اور جس کے باوجود ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا جو مزاحمت اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مفاہمت، جواب شکوہ کی روشنی میں ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔ ایک بے سروپا کہانی ہے بیچارگی کی اور بس۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔