شہباز شریف کی حالیہ متفقہ علیہہ رہائی کے بعد حکومتی حلقوں میں جو بے چینی اور صحافتی حلقوں میں جو سوالات پائے جاتے تھے، اب ملک سے باہر جانے کی قانونی اجازت ملنے کے بعد وہ سرکاری پیچ و تاب اور بڑی چہ مگوئیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
کیا شہباز شریف کسی ڈیل کے تحت باہر جا رہے ہیں؟ کیا شہباز شریف عدالت میں دکھائے گئے ریٹرن ٹکٹ کی تاریخ ہی کے مطابق تین جولائی تک واپس آ جائیں گے؟ کیا شہباز شریف کوئی پیغام لے کر لندن جا رہے ہیں یا لندن سے کچھ پیغامات وصول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
لندن کا ٹکٹ کٹوانے سے پہلے اسلام آباد میں چھوٹے میاں صاحب کی برطانوی ہائی کمشنر سے ’خیر سگالی ملاقات‘ نے پہلے ہی خیراندیشوں اور بدخواہوں میں یکساں کھلبلی مچا دی تھی، سونے پر سہاگہ چینی سفیر سے ملاقات اور بیانات بعد از ملاقات نے اس تاثر کو مزید اجاگر کیا کہ ہو نہ ہو خادمِ اعلیٰ صاحب ۔۔۔ Is up to something
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی صفوں میں سے جو ارادتاً ’فیلرز‘ چھوڑے اور چھڑوائے جا رہے ہیں، انہوں نے نئی قیاس آرائیوں کو جنم دے دیا ہے کہ کیا واقعی وزیراعظم اسمبلیاں توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔ موجودہ حالات و واقعات کا باریک بینی سے اندرونی جائزہ لیا جائے تو فی الحال بظاہر کچھ ایسے کواکب نظر نہیں آتے کہ معاملات ایسی نہج تک پہنچے یا پہنچائے جا رہے ہوں کہ پارلیمان کو قبل از اختتام مدت تحلیل کر دیا جائے۔ ایسا کرنے کی صورت میں فی الحال عمران خان کے لیے سیاسی اور انتخابی طور پر فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ملک بھر کے حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے لے کر انتخابی اصلاحات کا نیا اور متنازعہ ڈول ڈالنے تک، فی الوقت نہ تو ووٹر اور نہ ہی پی ٹی آئی کا الیکٹیبل تیار ہے کہ قبل از وقت عام انتخابات کا متحمل ہوسکے۔ فی الوقت تو وزیراعظم عمران خان کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کو معاشی ریلیف دینا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کا چوتھا وزیرِ خزانہ اپنا پہلا بجٹ کسی کرشماتی قوت کے تحت کوئی ایسا چُھو مَنتر والا تشکیل دے کہ سارے دِلدر ہی دور ہو جائیں۔
اسی واسطے سعودی عرب کا حالیہ رواں دورہ بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ دہائیوں کے رفیق سے بگڑی حالیہ رقابت کس حد تک بہتر کی جا سکتی ہے اور کیا پاکستان کے خراب معاشی حالات میں سعودی عرب ایک مرتبہ پھر کچھ مدد کر سکتا ہے۔ کیا سعودی عرب سے ایک نیا بیل آؤٹ پیکج مل سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا سعودی عرب پہلے تشریف لے جانا اور ولی عہد محمد بن سلمان سے خصوصی ملاقات پاک سعودیہ تعلقات کی بہتری اور حالیہ کشیدگی/ غلط فہمی کے ازالے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دورے کی افادیت کا اندازہ لگایا جا سکے گا جب وزیراعظم اور شاہی ولی عہد کے درمیان ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔
سنگین معاشی اور خارجہ پالیسی چیلنجز کی چھتری تلے فی الوقت تو وزیراعظم قبل از وقت انتخابات کے متحمل نہیں ہو سکتے اور خاص کر ایسے حالات میں جبکہ ان کی جماعت 2013 یا 2018 کے مقابلے میں اپنی مقبولیت کے پوائنٹس بھی تیزی سے گنوا رہی ہے۔ کم از کم رواں 2021 کے اختتام تک تو وزیر اعظم کا فوکس رہے گا کہ مہنگائی پر جیسے تیسے ہو کچھ نہ کچھ کنٹرول کیا جائے اور معیشت کے پنکچر شدہ پہیے کو مرمت کے ساتھ چلایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ گذشتہ دو ماہ سے پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی جا رہی اور اب رفتہ رفتہ بجلی کی قیمت بھی کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ عوام کو ریلیف کا تاثر ملنا شروع ہو۔
ایک اور بڑا چیلنج عید کے بعد اپوزیشن کی نئی صف بندی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
لیکن اپوزیشن کی نئی پوزیشن کا انحصار شہباز شریف کی طرزِ سیاست اور ان کی ممکنہ لندن پرواز کے اثرات پر ہوگا۔ تاوقت یہ کہ تحریر حکومت تو بضد ہے کہ شہباز شریف کو ملک سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا لیکن ایگزیکٹو رکاوٹ کی صورت میں حکومت توہین عدالت کی مرتکب بھی قرار پا سکتی ہے۔ میری ناقص دانست میں حکومت کو شہباز شریف کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے وگرنہ خُود اِسی پتھر سے ٹکرا کر لڑکھڑا بھی سکتی ہے۔
فی الحال شہباز شریف شارٹ ٹرم یا قلیل مدت کی سیاست کرنے کے موڈ میں نہیں، لہذا میری ناقص رائے میں خود شہباز شریف بھی اس بات کے حامی نہیں ہوں گے کہ موجودہ حالات میں عمران خان کی حکومت کو گِرا کر ایک سیاسی بے یقینی اور بد انتظامی کا پھندہ خود اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈالا جائے۔ رہائی کے بعد شہباز شریف اب 2023 کے لیے سیاست اور کاوش کریں گے نہ کہ شارٹ ٹرم فوائد کے لیے۔
ان کی حالیہ ملاقاتوں اور لندن روانگی کی خواہش کو (طِبّی مقاصد کے علاوہ) اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ مفاہمانہ سیاست کے ماہر، بقائے باہمی کے سفیر اور بے مثال منتظم کے طور پر تو شہباز شریف پہلے ہی خود کو منوا چکے ہیں، اصل معاملہ ان کے انفرادی طور پر ’shine alone‘ کرنے کا ہے۔ اِس مقصد کے لیے موزوں حالات اور مواقع جوں ہی میسر آئے، شہباز شریف میں وہ خوبیاں ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کے لیے ملک کی کایا پلٹ سکیں۔ انہی خوبیوں کی بِنا پر خود عمران خان بھی کسی اور کی نسبت شہباز شریف کو اپنے لیے زیادہ بڑا اور اہم چیلنج تصور کرتے ہیں اور متبادل کے طور پر پریشانی خیال کرتے ہیں۔
لیکن کم از کم 2023 عام انتخابات تک شہباز شریف کے لیے بھی موزوں نہیں ہوگا کہ وہ عمران خان کے لیے شارٹ ٹرم چیلنج کی حیثیت اختیار کرکے اپنے لانگ ٹرم کوائف میں جھول پیدا کریں، مگر 2023 کی ریس تک کے لیے sustain کرنے کی خاطر صرف ایک سال کی قلیل مدت میں وزیراعظم عمران خان کو طوفانی اصلاحات کرنی ہوں گی، وگرنہ شہباز کی لندن کی عارضی پرواز کو تو حکومت شاید روک بھی لے مگر ان کی طویل پرواز کے آگے بند نہ باندھ سکے گی۔